1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین کے ساتھ ایف ٹی اے پر ملا جلا رد عمل

1 جنوری 2020

پاکستان اور چین کے درمیان آزاد تجارت کے معاہدہ کے دوسرے مرحلے پر عمل درآمد آج سے شروع ہو گیا ہے، جس پر صنعتی اور کاروباری برادری خوشی کا اظہار کر رہی ہے۔ تاہم چند ماہرین اس معاہدے سے مطمئن نہیں ہیں۔

https://p.dw.com/p/3VZDg
Pakistan | China und Pakistan starten ihre Handelsroute
تصویر: picture-alliance/AA

 

اس معاہدے کے پہلے مرحلے کا آغاز سن دو ہزار چھ میں ہوا تھا، جس پر بہت تنقید ہو رہی تھی۔ پہلے معاہدے کے پہلے مرحلے کے بعد کچھ ہی برسوں میں چینی مصنوعات نے پاکستان کی مارکیٹ میں اپنے لیے ایک بڑی جگہ بنا لی تھی اور دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا خسارہ بھی بہت بڑھ گیا تھا، جو بیجنگ کے حق میں تھا۔ حکومتی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کے معاہدے کے دوسرے مرحلے کا آغاز کیا ہے۔ آزاد تجارت کے پہلے مرحلے کے بعد چین کی طرف سے پاکستانی صنعت کاروں کے لیے سات سو چوبیس مصنوعات پرسے ڈیوٹی ہٹا دی گئی تھی۔ اب زرعی اجناس سمیت مجموعی طور پر ڈیوٹی سے مبرا اشیا کی تعداد ایک ہزار سینتالیس ہو جائے گی۔

پنجاب سے تعلق رکھنے والے معروف صنعت کار قیصر احمد شیخ کے خیال میں یہ پاکستان کے پاس اچھا موقع ہے کہ وہ اس معاہدے سے فائدہ اٹھائے۔ ''اس معاہدے کے پہلے مرحلے کے مقابلے میں یہ دوسرا مرحلہ پاکستان کے حق میں ہے اور ہماری ٹیکسٹائل، گارمنٹس، سرجیکل گڈز سمیت کئی صنعتوں کو فائدہ ہو سکتا ہے۔‘‘

قیصر احمد شیخ کے بقول،'' ڈالر کے ریٹ گرنے کی وجہ سے پاکستان میں مزدور کی اجرت میں کمی آئی ہے۔ جبکہ چین میں مزدور کی اجرت بڑھتی جارہی ہے۔ تو ہم اپنی مصنوعات کو اب چین بھیج کر وہاں کی بڑی مارکیٹ میں جگہ بنا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ چاول کی بھی چین میں بہت مانگ ہے۔ ہم زرعی مصنوعات بھی چین کو بھیج سکتے ہیں، جس سے ہماری زراعت کو فائدہ ہوگا۔‘‘

China Xinjiang Provinz - Am China-Pakistan Friendship Highway
ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان زرعی مصنوعات بھی چین کو بھیج سکتا ہے جس سے پاکستان کی زراعت کو فائدہ ہوگاتصویر: Getty Images/AFP/J. Eisele

 

دوسری جانب ماہرین اس خوش امیدی کو غیر منطقی سجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں معاہدے سے فائدہ چین کو ہی ہونا ہے۔ کراچی کے انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن سے وابستہ معروف معیشت دان محمد حینف آجاری کے خیال میں اس معاہدے سے پاکستانی معیشت کو کوئی فائدہ ہونے نہیں جارہا۔ وہ کہتے ہیں،'' فائدہ ان کو ہوتا ہے جو کچھ پیدا کرتے ہیں۔ ہم گندم سے لے کر کاٹن تک سب باہر سے منگوارہے ہیں۔ ہمارے صنعت کار محنت نہیں کرنا چاہتے اور نہ ہی کوئی معیاری چیز بنانا چاہتے ہیں بلکہ وہ اسمبلنگ کرنا چاہتے ہیں۔ تو ہم چین کو کچھ زیادہ ایکسپورٹ نہیں کر سکیں گے۔ زیادہ تر چیزیں جو ہم چین کو بھیجیں گے وہ زراعت سے منسلک ہیں، اور زراعت میں بہت کم ویلیو ایڈیٹ آئیٹمز کی گنجائش ہوتی ہے۔ تو اس سے چین کو زیادہ فائدہ ہوگا۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تین سو تیرہ نئی مصنوعات چین بھیج سکتا ہے۔ ''جب کہ ہم چین سے 6786 آئٹمز درآمد کریں گے۔ تو اس میں ہمارا فائدہ کہاں ہے۔ چین پہلے ہی ہمیں تقریباً گیارہ بلین ڈالرز کی اشیا  بھیجتا ہے اورہماری ایکسپورٹ چین کے لیے صرف تین بلین ڈالرز کے قریب ہیں۔ اب ہم مزید ان سے چیزیں خریدیں گے تو پاکستان کو فائدہ کہاں ہورہا ہے۔‘‘

China Xinjiang Provinz - Am China-Pakistan Friendship Highway
ایف ٹی اے معاہدے سے پاکستان کو کوئی فائدہ پہنچے گا؟ ماہرین کی رائے اس بارے میں منقسم ہےتصویر: Getty Images/AFP/J. Eisele

 

کچھ معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ اس معاہدے کے دوسرے مرحلے سے کچھ صنعت کاروں کو فائدہ ہو سکتا ہے لیکن بحیثیت مجموعی اس سے ملک کے عوام کو نقصان ہوگا۔ معروف معیشت دان ڈاکٹر عذرا طلعت سعید کے خیال میں زرعی اجناس کی ایکسپورٹ سے ملک کئی بحرانوں کا شکار ہو سکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں،''اگر ہم چاول اور چینی چین کو بیچتے ہیں، تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ ہمیں ایسی چیزیں بڑی مقدار میں اگانی پڑیں گی تاکہ ملکی اور بیرونی دونوں مانگ پوری ہو۔ جس کے لیے بہت سارا پانی چاہیے ہوگا۔ چاول اور گنے میں بہت پانی خرچ ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کسان وہ فصلیں نہیں اگا پائے گا، جو پاکستانیوں کی اکثریت کھاتی ہے۔ اس سے نہ صرف خوراک کا ایک بحران پیدا ہوگا بلکہ آنے والے وقتوں میں پانی کا مسئلہ اور بھی شدید ہو جائے گا۔‘‘

ڈاکٹر عذرا اس تاثر کو غلط قرار دیتی ہیں کہ چین ہم سے صنعتی مصنوعات لے گا کیونکہ یہاں  لیبر سستا ہے۔ ''آپ کوئی ایک شے بتائیں جو پاکستان بنا سکتا ہے اور چین نہیں بنا سکتا۔ وہ اپنے قیدیوں سے پاکستان میں اپنے پروجیکٹس پر کام کرارہے ہیں۔ انہوں نے پاکستانیوں کو رکھنا تک گوارا نہیں کیا۔ اور یہاں لوگ یہ امید لگا رہے ہیں کہ چین ہماری سستی لیبر کو استعمال کرے گا یا ٹیکسٹائل وغیرہ کی پروڈکٹس بڑے پیمانے پر لے گا۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہوگا۔‘‘

عبدالستار/ اسلام آباد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید