1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین کی حیران کن ترقی اور انگُشت بہ دنداں مغربی ممالک

13 جنوری 2019

مغربی دنیا چین کی تیز رفتار ترقی اور جدت کی صلاحیتوں پر حیران ہے لیکن چینی اپنے گزشتہ دو سو برسوں کو ’غير طبعی‘ سمجھتے ہیں۔ تبصرہ نگار فرانک زیرین کے مطابق اب چین کے بارے میں فرسودہ خیالات بدلنے کا وقت آن پہنچا ہے۔

https://p.dw.com/p/3BTmY
China E-Auto von BAIC Group bei der CHITEC Messe in Peking
تصویر: picture-alliance/dpa/Imaginechina/S. Fan

جب میں پچیس برس پہلے بیجنگ آیا تھا تو ڈِنگ شیاوپِنگ کی اصلاحاتی اور چین کے دروازے دنیا کے لیے کھولنے کی پالیسیاں اپنے عروج پر تھیں۔ اگر میں سن انیس چورانوے میں چین کے بارے میں یہ پیش گوئی کرتا کہ وہ سن دو ہزار اٹھارہ میں کیسا نظر آئے گا؟ تو اس وقت لوگ یقیناﹰ مجھے ایک پاگل قرار دیتے۔

اُس وقت میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ چین اس قدر تیزی سے، خاص طور پر حالیہ عشرے میں، مغرب کے مقابلے میں آ جائے گا۔ ایک طویل عرصے سے مغرب اور چین کے مابین طاقت کا ایک توازن برقرار تھا۔ مغرب کے پاس ٹیکنالوجی تھی اور چین ایک بہت بڑی منڈی ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کے لیے ایک فیکڑی بھی تھا۔ چین میں مغربی مصنوعات کی کاپی تیار کرنے کو کوئی خطرہ محسوس نہیں کیا جاتا تھا۔

اب چین خود ایجادات کا ملک بن چکا ہے۔ چینی کاروباری اداروں نے ’وی چیٹ پے اور علی پے‘ جیسی ایپلی کیشنز کے ساتھ بینک اور مالیاتی دنیا میں انقلاب برپا کر رکھا ہے۔ ہواوے کے اسمارٹ فونز اپیل کی طرح جدید ہیں اور عالمی سطح پر فروخت کے معاملے میں وہ امریکی آئی فون کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ ابھی چند روز پہلے ہی چین نے چاند کے آنکھوں سے اوجھل سائیڈ پر لینڈنگ کرتے ہوئے تاریخ رقم کی ہے۔ چین میں الیکڑک بسیں ایک عام سی بات ہیں جبکہ جرمنی جیسے ملک میں یہ ابھی بھی پائلٹ پروجیکٹس کے تحت چلائی جا رہی ہیں۔ اگر مصنوعی ذہانت کی بات کی جائے تو اس میدان بھی وہ اپنے حریف ممالک سے پیچھے نہیں ہے۔

China Polizei Gesichtserkennung
جدید آلات سے لیس ایک چینی پولیس اہلکارتصویر: Getty Images/AFP

چینی ترقی نئی نہیں

مغرب میں بہت سے لوگ ابھی تک حیران ہیں کہ ایسا کیسے ممکن ہے؟ ایسے افراد اصل میں اپنے ہی دقیانوسی خیالات کا نشانہ بنے ہیں۔ یہ سمجھتے تھے کہ چینی صرف نقلی مصنوعات تیار کرنے میں تیز ہیں۔ لیکن یہ شاید ان کی چھوٹی سی بیوقوفی تھی۔ ایک عشاریہ چار ارب انسانوں کی آبادی میں ذہین نوجوانوں کا گروہ خود کو کیوں نہیں منوا سکتا؟ جیسے ہی اقتصادی فریم ورک نے جگہ بنائی، ایجادات کا عمل شروع ہو گیا۔

چین میں ایجادات اور ترقی کا سفر شاید مغرب کے لیے تو حیران کن ہے لیکن خود چینیوں کے لیے نہیں ہے۔ مغرب میں چین کو غیر ترقی یافتہ سمجھا جاتا تھا لیکن خود چینیوں کے خیال میں ان کا ملک ایک کمزور اور عارضی مرحلے سے گزر رہا تھا۔ چینی مفکرین کے خیال میں 150 برسوں بعد اب ان کا ملک معمول کے مطابق آتا جا رہا ہے۔ سن 1820ء میں چین دنیا کی تیسری بڑی اقتصادی قوت تھا۔ اس کے بعد افیون جنگ سے لے کر جاپانی حملے تک ایک توہین آمیز صدی کا آغاز ہوا۔ شکر ہے اب یہ دور ختم ہو چکا ہے۔

Frank Sieren *PROVISORISCH*
ڈی ڈبلیو کے فرانک زیرین بیجنگ میں بیس برس سے زائد قیام کر چکے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/M. Tirl

اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں مغرب نے چین کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس کے پیچھے اُس چینی سلطنت کے غرور کا بھی ہاتھ تھا، جو خود کو دنیا کا مرکز سمجھتی تھی اور جس نے اُس وقت ٹیکنالوجیکل ترقی سے منہ موڑا، جب یہ یورپ میں قدم جما رہی تھی۔ چنگ سلطنت کا خیال تھا کہ وہ اس کے بغیر بھی سب کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور صنعتی انقلاب کے دوران سوئی رہی۔ اس وقت کے کانگ یوائی اور لیانگ کیچاؤ جیسے اصلاحات پسندوں کو ملک چھوڑنے یا پھر موت کے پھندے کا سامنا کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں چین کو منظم طریقے سے چلانا ناممکن ہو چکا تھا، جس کی وجہ سے یہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوا۔ اب چالیس برس بعد گزشتہ دسمبر میں چین نے ایک مرتبہ پھر دنیا کے لیے اپنے دروازے کھول دیے ہیں۔

مختلف معاملات کے حوالے سے اب بھی چین پر تنقید کی جا سکتی ہے لیکن اگر ٹیکنالوجی کی بات کی جائے تو چین اس مرتبہ کشتی پر سوار ہو چکا ہے۔ ایک سخت سبق سیکھنے کے بعد وہ باقی دنیا سے بھی آگے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

جرمنی نے بھی آغاز چین کی طرح کیا

اس امر کو اب بھلایا جا چکا ہے کہ کبھی جرمنی نے بھی برطانوی ریل کے انجنوں کی کاپی تیار کی تھی اور ’میڈ اِن جرمنی‘ کو برطانوی اشیاء کی سستی نقل سمجھا جاتا تھا۔ ٹیکنالوجی اور صنعت کی دنیا میں جرمنی کا عروج ایک دم سے ہوا تھا لیکن اس کے برعکس چین تو پھر بھی ماضی میں کئی صدیوں تک دنیا کے جدید ممالک میں شامل رہا ہے۔ کاغذ، چینی مٹی کے برتن، بندوق پاؤڈر اور کمپاس جسیی ایجادات اسی ملک میں ہوئیں۔

مغرب کو اپنا یہ نظریہ اب ترک کر دینا چاہیے کہ چین صرف سستی نقول تیار کرنے والا ملک ہے۔ چین میں ایجادات کے لیے آزادی میسر ہے۔ نقول تو آرڈر پر تیار کی جا سکتی ہیں لیکن تخلیق اور جدت کی صلاحیت کو ایسے تیار نہیں کیا جا سکتا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ چین کا مغربی دنیا پر انحصار کم ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن مغرب کا چینی مارکیٹ پر انحصار کم نہیں ہو رہا۔ جرمنی کے مشہور کار ساز ادارے وی ڈبلیو کے چیف ایگزیکٹیو کا حال ہی میں کہنا تھا، ’’فوکس واگن کا مستقبل چینی مارکیٹ طے کرے گی۔‘‘