1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین مقامی صحافیوں پر شک کیوں کرتا ہے؟

27 مارچ 2022

چین کے سرکاری میڈیا نے چینی صحافیوں کے خلاف تنقیدی مضامین کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا ہے جس میں ان پر الزامات لگائے گئے ہیں کہ وہ ’چین مخالف رپورٹنگ‘ میں غیر ملکی میڈیا کی مدد کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/48vN0
Deutschland Berlin | Protest für Pressefreiheit vor der Chinesischen Botschaft
تصویر: Tobias Schwarz/AFP/Getty Images

چین کے سرکاری میڈیا نے گزشتہ چند ہفتوں سے مغربی میڈیا پر حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ چینی خبر رساں ایجنسی شنہوا  نے  حال ہی میں شائع ہونے والی انگریزی زبان کی ایک رپورٹ میں مغربی میڈیا پر الزام عائد کرتے ہوئے لکھا، ''ابلاغ عامہ کی مغربی تنظیموں نے چینی میڈیا کے سرکردہ صحافیوں کے ایک گروہ کو بھرتی کر کے اسے پیادوں کی طرح استعمال کرتے ہوئے انہیں چین کے خلاف انتہائی نقصان دہ قسم کی بیان بازی اور منفی پروپیگنڈا کرنے پر مامور کیا ہے۔‘‘

اس رپورٹ میں مزید کہا گیا، ''اس طرح کے پروپیگنڈا کی مدد سے چین کی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں کو مسخ کر کے مغربی دنیا میں چین کے خلاف انتہائی متعصبانہ سوچ کو فروغ دینے کی کوشش جاری ہے۔ یہ بنیادی پیشہ وارانہ اخلاقیات کی سنگین خلاف ورزی ہے اور یہ طرز عمل کسی بھی قسم کی معروضیت کے احساس کو ختم کرنے کا سبب بنتا ہے۔‘‘

صحافتی بہادری کا ایوارڈ چینی اور فلسطینی خواتین صحافیوں کے نام

چین کا کورونا کی وبا پر رد عمل

چین کی سرکاری نیوز ایجنسی شنہوا نے کووڈ انیس کے پھیلاؤ کے ابتدائی دور میں ریاست سنکیانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں مغربی میڈیا کی رپورٹوں کے حوالے سے لکھا تھا، ''اس قسم کی رپورٹنگ مغربی دنیا کی طرف سے چین پر تہمت لگانے اور اس کے امیج کو داغ دار بنانے کی مہم کے سوا کچھ بھی نہیں۔‘‘ اس نیوز ایجنسی نے مزید لکھا کہ اس قسم کی رپورٹنگ چینی عملے کی مدد کے بغیر ناممکن تھی۔

شنہوا کی رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا، ''مغربی میڈیا میں چینی نامہ نگاروں نے چین کی طرف سے انسانی حقوق کی نام نہاد خلاف ورزیوں کی عکاسی کرنے والے ثبوت بھی گھڑے ۔‘‘ 

China Peking | Symbolbild Pressefreiheit
چین میں صحافیوں کے لیے کام کرنا بہت مشکل ہےتصویر: Roman Pilipey/AP/picture alliance

ہانگ کانگ کی چینی یونیورسٹی میں میڈیا اور کمیونیکیشن کے شعبے سے منسلک اسسٹنٹ پروفیسر کیچینگ فانگ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دیگر قوم پرست ذرائع ابلاغ نے بھی ایسی ہی رپورٹیں شائع کی ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''ان میں سے کچھ مقامی صحافی اب اپنی ذاتی حفاظت کے ساتھ ساتھ چین میں اپنے خاندان کے افراد کی حفاظت کے بارے میں بھی فکر مند ہیں۔‘‘ مشقت پر مجبور چینی مزدور کے لاپتہ بیٹے کی مسخ شدہ لاش برآمد

فانگ کے بقول، ''شنہوا کے مضمون میں چین کے بارے میں رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں پر کڑی تنقید کی گئی ہے تاہم  میں نے جن صحافیوں سے بات کی ہے، ان میں سے بہت سے صحافیوں کا کہنا تھا کہ وہ مغربی میڈیا میں چین سے متعلق رپورٹنگ میں اپنا حصہ ڈالتے رہیں گے۔‘‘ فانگ کا کہنا ہے کہ  یہ صحافی سمجھتے ہیں کہ غیر ملکی میڈیا میں چین شناسی اور اس کے بارے میں بہتر تفہیم کے لیے ان کا کام بہت اہم ہے۔

اختلافی نظریات رکھنے والوں کی تلاش

چین کی مینڈرین زبان میں ایک سرکاری جریدے 'گلوبل ٹائمز نیوزپیپر‘ میں فروری میں چھپنے والے ایک مضمون میں متعدد چینی صحافیوں کے نام درج تھے جو منحرف ہو کر مغربی میڈیا کے ساتھ مل گئے اور یوں انہوں نے چینی عوام اور ریاست کی پیٹھ میں 'چھرا گھونپا‘۔ اس مضمون میں غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے لیے کام کرنے والے کچھ چینی صحافیوں کے نام، ان کی ملازمت کی تفصیلات وغیرہ کا انکشاف کیا گیا اور مبینہ مغربی سازش میں کردار ادا کرنے پر ان پر سخت تنقید کی گئی۔

چینی حکومت کے دباؤ کے سبب لنکڈ اِن سروس بند کرنے کا فیصلہ

Hongkong | Protest für Pressefreiheit in China
چین میں آزادئی صحافت کے لیے اکثر خاموش احتجاج کا اہتمام بھی کیا جاتا ہےتصویر: Mary James/SOPA Images/ZUMA Wire/picture alliance

اس مضمون میں مزید لکھا گیا، ''اصل میں ان لوگوں کا شاندار فائدہ  بین الثقافتی کاموں کے لیے ہو سکتا تھا، جو اپنے منفرد نقطہ نظر کے ساتھ چینی اور مغربی قارئین کے سامنے دنیا اور چین کے بارے میں زیادہ معروضی اور حقیقت پسندانہ نظریہ پیش کر سکتے تھے تاہم انہوں نے یعنی )چینی صحافیوں( نے اپنی رپورٹوں کو مغرب میں چین مخالف قوتوں کے پاس بطور ہتھیار پہنچا دیا۔ گویا اپنے ہم وطنوں ہی کی پیٹھ پر وار کرنے کے لیے انہیں استعمال کیا۔‘‘

چین میں معروضی رپورٹنگ مشکل ہے

امریکہ کی ژیل یونیورسٹی کے لا اسکول سے وابستہ یانگ یانگ چینگ کہتے ہیں کہ غیر ملکی میڈیا کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے چینی عملے اور چین میں اپنے ذرائع کی حفاظت کے لیے مزید اقدامات کریں۔ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ چین میں میڈیا کی بگڑتی ہوئی صورت حال غیر ملکی میڈیا کے لیے اس ملک کے بارے میں رپورٹنگ کو مزید دشوار بنا سکتی ہے۔

آک لینڈ یونیورسٹی کے چاؤننگ سو کے بقول آمرانہ ریاستیں بشمول چین اور روس خبروں کی کوریج کے لیے مواقع مزید محدود کر رہی ہیں۔ سو کا کہنا تھا، ''مختلف وجوہات کی بنا پر جیسے جیسے غیر ملکی میڈیا ادارے چین چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں، ویسے ہی چین کے بارے میں رپورٹنگ کرنا ان کے لیے مشکل ہوتا جائے گا۔ انہیں مزید چیلنجز کا سامنا ہوگا۔ ان کے لیے میڈیا کا اعتماد حاصل کرنا بھی مشکل ہو گا، خاص طور سے  انٹر ویو دینے والوں اور ملک کے حالات کی صحیح تصویر کشی کرنے والوں کا اعتماد حاصل کرنا آسان نہیں رہے گا۔‘‘

ولیم ژینگ (ک م / م م)