1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین کا نیا قمری سال اور میری کھانے کی دعوت

18 فروری 2021

بچپن میں چین کے نئے قمری سال اور اس کے جشن کے بارے میں پڑھتے ہوئے سوچا بھی نہیں تھا کہ کبھی میں اس موقع پر چین میں موجود ہوں گی۔ چھ سال قبل پڑھائی کے سلسلے میں پہلی بار چین آنے کا موقع ملا۔

https://p.dw.com/p/3pWnz
DW Urdu Blogerin Tehreem Azeem
تصویر: privat

اپنے دو سالہ قیام کے دوران متعدد بار کوشش کی کہ نئے سال کا جشن کسی چینی خاندان کے ساتھ منایا جائے پر کوئی سلسلہ نہ بنا۔ چین میں نئے سال کے جشن کو سپرنگ فیسٹول یعنی بہار کا تہوار کہا جاتا ہے۔ یہ چینیوں کے لیے سال کا سب سے بڑا تہوار ہوتا ہے۔ چینی دنیا کے کسی بھی کونے میں رہ رہے ہوں، سپرنگ فیسٹول سے قبل اپنے اپنے آبائی گھروں کو لوٹ جاتے ہیں تاکہ نئے سال کا استقبال اپنے خاندان والوں کے ساتھ کر سکیں۔ اس موقع پر ان کا کسی اجنبی کو اپنے گھر مدعو کرنا بہت بڑی بات ہوتی ہے۔ عام طور پر وہ یہ جشن اپنے خاندان کے ساتھ منانا ہی پسند کرتے ہیں۔

اس وقت تو مجھے کہیں سے کوئی دعوت موصول نہیں ہوئی لیکن اس دفعہ جب میں ایک نئی ڈگری کے لیے چین واپس آئی ہوں، یہ موقع بھی مل ہی گیا۔ ہوا کچھ یوں کہ کورونا کی عالمی وبا اور اس کے تحت لگنے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے دنیا بھر میں لوگوں کی نقل و حرکت محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ چین میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ میری پی ایچ ڈی کی سپروائزر، جو ایک خاتون ہیں، مجھے پورا سال یونیورسٹی کے اندر ہی دیکھتی رہیں۔ موسمِ سرما کی چھٹیوں سے قبل انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں نئے سال کے موقع پر ان کے گھر آنا پسند کروں گی؟  میں نے کہا بالکل، مجھے ان کے گھر آ کر بہت اچھا لگے گا۔

اس مرتبہ نیا چینی سال بارہ فروری سے شروع ہوا ہے۔ چینی کیلنڈر کے مطابق یہ بیل کا سال ہے۔ چینی نئے سال کے آغاز سے ایک دن قبل اس کا جشن مناتے ہیں۔ اس موقع پر وہ سرخ لباس پہنتے ہیں، بچوں کو پیسوں سے بھرے سرخ لفافے دیتے ہیں، اور شام کو مل کر ڈمپلنگز بناتے اور کھاتے ہیں۔ اسی شام چین کے سرکاری ٹی وی چینل سے دنیا میں سب سے زیادہ دیکھا جانے والا تفریحی پروگرام سپرنگ گالا بھی نشر کیا جاتا ہے۔

پروفیسر نے دعوت سے تین روز قبل مجھ سے پوچھا کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے میں کیا کچھ نہیں کھا سکتی؟ میں ان کے اس سوال پر ان کی بہت ممنون ہوئی۔ وہ ایک تو مجھے نئے سال کے موقع پر اپنے گھر بلا رہی تھیں اور پھر اتنا خیال بھی کر رہی تھیں۔

مجھے ان کے گھر لے جانے کے لیے کوئی تحفہ خریدنا تھا۔ پاکستان میں ایسے مواقع پر کیک یا پھلوں سے کام چلایا جاتا ہے۔ میں پہلی بار کسی چینی کے گھر جا رہی تھی۔ مجھے کچھ نہیں پتا تھا کہ چینی اس موقع پر ایک دوسرے کے گھر کیا لے کر جاتے ہیں۔ کچھ چینی دوستوں سے مشورہ کیا اور کچھ خود ادھر ادھر نظر دوڑائی، پھر ایک سپر مارکیٹ سے پروفیسر کے لیے مختلف قسم کے خشک میوہ جات سے بھرا سرخ ڈبہ خرید لیا۔ چین میں نئے سال کے موقع پر سپر مارکیٹیں ایسے سرخ ڈبوں سے سج جاتی ہیں، کسی میں خشک میوہ جات ہوتے ہیں، کسی میں شراب، کسی میں کافی اور چائے تو کسی میں مختلف اقسام کے اسنیکس۔ 

پروفیسر نے مجھے دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا تھا۔ میں ڈیڑھ بجے ان کے گھر کے قریبی سب وے اسٹیشن پر پہنچی۔ وہ اپنے شوہر اور بیٹے کے ساتھ مجھے لینے آئی ہوئی تھیں۔ ہم ان کی گاڑی میں بیٹھ کر ان کے ایپارٹمنٹ تک پہنچے، جو کافی بڑا تھا۔ ان کے باورچی خانے میں دو گھریلو مددگار خواتین کام کر رہی تھیں۔ ایک طرف تیار شدہ کھانوں کی دیگچیاں پڑی تھیں۔ پروفیسر نے بتایا کہ وہ خاص طور پر نئی دیگچی خرید کر لائی ہیں تاکہ میرے لیے کھانا ان دیگچیوں میں نہ بنے، جن میں وہ عام طور پر اپنے لیے خنزیر کا گوشت بناتے ہیں۔ میں یہ سن کر مزید خوش ہوئی کہ میری خاطر انہوں نے اتنا کچھ کیا۔ انہوں نے کھانے کے لیے بھی نئے پلیٹیں اور چاپ اسٹکس خریدی تھیں تاکہ میں بغیر کسی پریشانی کے کھانا کھا سکوں۔ میں دل ہی دل میں شرمندہ بھی ہو رہی تھی۔ نہ جانے انہیں مسلمانوں کے بارے میں اس قدر احتیاط کرنے کا کس نے بتایا تھا؟

ان کے گھر کے لاؤنج میں میز پر خشک میوہ جات، کینڈی اور چاکلیٹس پڑی ہوئی تھیں۔ ساتھ ہی چائے کی کیتلی اور کپ رکھے ہوئے تھے۔ تھوڑی دیر بعد پروفیسر مجھے کھانے کی میز پر لے گئیں۔ وہاں ان کے والدین، بھائی اور شوہر بھی موجود تھے۔ پروفیسر نے مجھے اپنے اور اپنے شوہر کے درمیان بٹھایا تاکہ کھانے کے دوران وہ دونوں مجھ سے باتیں کر سکیں اور میں خود کو اکیلا محسوس نہ کروں۔

کھانے میں گرل مچھلی، جھینگے، مرغی، کھیرے اور مشروم کی سلاد اور ان کے لیے دو پورک کی ڈشز بھی تھیں۔ وہ میرے لیے حلال ریستوران سے کولڈ میٹ بھی لائی تھیں۔ انہوں نے اپنے پینے کے لیے سپارکلنگ وائن، بئیر اور چینی شراب کا بھی انتظام کیا ہوا تھا۔ پروفیسر کھانے کے دوران میری پلیٹ مچھلی، سلاد اور جھینگوں سے بھرتی رہیں۔ ان کے شوہر مجھ سے پاکستان اور چین کے بارے میں بات کرتے رہے۔ پروفیسر نے بتایا کہ شام میں وہ سب مل کر ڈمپلنگز بنائیں گے اور رات بارہ بجے ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارک باد دینے کے بعد سوئیں گے۔

کھانے کے بعد پروفیسر کے والدین نے مجھے چینی زبان میں ڈھیروں دعائیں دیں۔ پروفیسر نے مجھے بتایا کہ وہ مجھے میری ڈگری کے بروقت مکمل ہونے کی دعا دے رہے ہیں۔ میں ان کی یہ دعا سن کر حیران رہ گئی۔ ہمارے ہاں لڑکیوں کو زیادہ تر نیک نصیب یا اولادِ نرینہ کی دعا دی جاتی ہے۔ مجھے پہلی بار کسی نے ڈگری مکمل ہونے کی دعا دی تھی۔ شاید چینیوں کی ترقی کا یہی راز ہے۔