1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین میں کرپشن کے خلاف خفیہ حراستی نظام

عصمت جبیں24 اکتوبر 2013

جب یُو چی ژی سے مسلسل پوچھ گچھ کو 39 روز ہو گئے تو چینی کمیونسٹ پارٹی کے کرپشن کے خلاف ادارے کے اہلکاروں میں اس بارے میں بحث شروع ہو گئی کہ ملزم سے اعتراف جرم کیسے کروایا جائے۔ ملزم ایک سرکاری کمپنی کا چیف انجینئر تھا۔

https://p.dw.com/p/1A5Wn
تصویر: Getty Images

اس بحث کے دوران ایک اہلکار نے کہا کہ اس نے ایک رات قبل ملزم یُو کا سر پانی میں ڈبوئے رکھا تھا۔ اگلے دن یُو اس وجہ سے انتقال کر گیا تھا کہ اس کا سر بار بار بہت ٹھنڈے پانی کی بالٹی میں ڈبویا جاتا رہا تھا۔ اس واقعے کے بعد چھ چینی تفتیشی اہلکاروں کے خلاف فرد جرم عائد کر دی گئی تھی۔ گزشتہ مہینے انہیں یُو کو تشدد کر کے ہلاک کرنے کے الزام میں باقاعدہ سزائیں بھی سنا دی گئی تھیں۔

اس مقدمے کی سماعت کے دوران دیے گئے بیانات کی جو تفصیلات خبر رساں ادارے روئٹرز کے نامہ نگار نے دیکھیں، وہ بہت حیران کن اور تکلیف دہ تھیں۔ یہ حلفی بیان ثابت کرتے ہیں کہ چینی صدر شی جِن پِنگ تو ملک میں بدعنوانی کے خلاف اپنی مہم کو زیادہ سے زیادہ کامیاب بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ساتھ ہی چینی کمیونسٹ پارٹی نے اپنے ارکان کی طرف سے جرائم کے ارتکاب کی صورت میں ان سے اقبال جرم کروانے کے لیے خفیہ حراستی نظام قائم کر رکھا ہے۔

China Präsident Xi Jinping Staatsbesuch Jakarta Indonesien
چینی صدر شی جِن پِنگتصویر: picture-alliance/dpa

بہت سے ماہرین قانون کے مطابق چین میں یہ مقدمہ غیر معمولی نوعیت کا ثابت ہوا۔ اس لیے کہ تشدد کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے چیف انجینئر یُو سے تفتیش کرنے والے اہلکاروں پر باقاعدہ فرد جرم عائد کر دی گئی۔ لیکن ساتھ ہی ایک بار پھر اُس چینی عدالتی نظام کے قانون کے عین مطابق ہونے کے بارے میں بہت سے سوالات بھی اٹھائے جانے لگے ہیں، جس میں ضابطوں کی خلاف ورزی عام سی بات ہے۔

چین میں کمیونسٹ پارٹی نے ’شُوآنگ گُوئی‘ نامی یہ حراستی نظام 1990ء میں متعارف کرایا تھا۔ اس کا مقصد بدعنوان سرکاری اہلکاروں کو سزا دینا تھا تاکہ رشوت ستانی اور کرپشن کے اس رحجان کو ختم کیا جا سکے جو چین میں تیز رفتار اقتصادی ترقی کے شروع کے دور میں بہت زیادہ ہو گیا تھا۔

اس نظام کے تحت کسی بھی مشتبہ فرد یا ملزم کی حراست غیر معینہ عرصے تک جاری رہ سکتی ہے۔ ایسے افراد کے اہل خانہ کو اکثر یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ ان کے سرکاری اہلکاروں کی طرف سے تحویل میں لیے گئے رشتہ داروں کے ساتھ کیا ہوا ہے یا وہ کہاں ہیں۔

نیو یارک میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے Nicholas Bequelin کہتے ہیں کہ چین میں جتنی زیادہ کرپشن کے خلاف چھان بین کی جائے گی، اتنا ہی زیادہ Shuanggui کہلانے والے حراستی نظام کا استعمال بھی کیا جائے گا۔ چین میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم ایک معروف وکیل مو شاؤپِنگ کے مطابق شُوآنگ گُوئی حراستی نظام غیر آئینی ہے۔

دوران تفتیش ہلاک ہو جانے والے مبینہ ملزم 42 سالہ یُو کو اس سال یکم مارچ کو حراست میں لیا گیا تھا۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ بات ابھی تک واضح نہیں کہ ان کے خلاف تفتیش کیوں کی جا رہی تھی۔ یُو کے اہل خانہ اور ان کے وکیل کے بقول یہ تفتیش شاید زمین کی فروخت کے کسی معاہدے کے بارے میں تھی۔

یُو کی موت کے سلسلے میں جن تفتیشی اہلکاروں کو سزائیں سنائی گئیں، ان کا تعلق چینی کمیونسٹ پارٹی کے نظم و ضبط کی نگرانی کے مرکزی کمیشن کے مقامی دفتر سے تھا۔ ان ملزمان کو ان کا جرم ثابت ہونے پر چار سے لے کر 14 برس تک کی سزائے قید سنائی گئی۔