1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین اور تائیوان: ایک ناممکن ملاقات کی خواہش؟

چوئی بوئی / امتیاز احمد31 دسمبر 2013

حیران کن طور پر تائیوان کے جمہوری صدر ما یِنگ جیو نے دیرینہ حریف ملک چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے تاہم ایسی کسی ملاقات کے آثار کم ہی نظر آتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1AjTk
تصویر: Fotolia/S. Finn

تائیوان کے صدر ما یِنگ جیو نے آئندہ ایپک اجلاس کے موقع پر اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ سے ملاقات کی خواہش کا اظہار ہانگ کانگ کے ایک ہفتہ وار میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا ہے۔ عوامی سطح پر تاریخ میں پہلی مرتبہ تائیوانی صدر کی طرف سے چین کے صدر سے ملاقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ سیاسی ماہرین کی رائے میں ایسی کسی بھی ملاقات کے آثار نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چین آج بھی تائیوان کو اپنا علیحدہ ہو جانے والا صوبہ قرار دیتا ہے اور اسے ایک آزاد ریاست تسلیم نہیں کرتا۔ اسی وجہ سے ما یِنگ جیو چین کی نظر میں تائیوان کے صدر بھی نہیں ہیں۔

اس مسئلے سے تائیوان کے صدر ما یِنگ جیو بھی آگاہ ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے الفاظ کا چناؤ انتہائی محتاط طریقے سے کیا ہے۔ انہوں نے ’دو صدور‘ کی ملاقات کی بجائے ’آبنائے تائیوان کے اطراف کے دو رہنماؤں‘ کے مابین ملاقات کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔

Taiwan 65. Jahrestag 228 Massaker Aufstand Gedenken Präsident Ma Ying-jeou
تصویر: Reuters

چین اور تائیوان میں دشمنی کی تاریخ

تائیوان بین الاقوامی سطح پر بتدریج اپنی شناخت قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ درجنوں جزائر پر مشتمل تائیوان کی حیثیت تاریخی ہے۔ سن 1949 میں چینی سرزمین پر اس ملک کی سب سے پرانی سیاسی جماعت نیشنل پیپلز پارٹی ’کومنتانگ‘ کی حکومت تھی۔ اس وقت کی برسر اقتدار جماعت ’کومنتانگ‘ نے چین کے کمیونسٹوں کے خلاف خانہ جنگی کا آغاز کر دیا تھا۔ اس خانہ جنگی میں فتح کمیونسٹوں کو ہوئی تھی جبکہ ’کومنتانگ‘ کے حامی فرار ہو کر تائیوان کے جزائر پر چلے گئے تھے۔ اس وقت سے چین ( عوامی جمہوریہ چین) اور تائیوان (جمہوریہ چین) کے مابین رابطے منقطع ہیں۔ یاد رہے کہ چین کا سرکاری نام عوامی جمہوریہ چین ہے جبکہ تائیوان کا سرکاری نام جمہوریہ چین (آر او سی) ہے۔

یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو تسلیم نہیں کرتے ہیں جبکہ چین نے تائیوان کو آزادی کا سرکاری سطح پر اعلان کرنے کی صورت میں جنگ کی دھمکی بھی دے رکھی ہے۔ سن 1971ء میں اقوام متحدہ نے بھی تائیوان کی رکنیت ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ آج دنیا بھر میں صرف 22 ممالک تائیوان کو ایک آزاد ریاست تسلیم کرتے ہیں۔

ملاقات ممکن نہیں

چین اور تائیوان کے مابین اقتصادی اور ثقافتی تعاون تو موجود ہے لیکن کبھی سرکاری طور پر کوئی اعلیٰ سطحی وفد کا تبادلہ نہیں ہوا۔ گزشتہ برس انڈونیشیا میں ہونے والے ایپک اجلاس میں چین کے صدر نے تائیوان کے ساتھ سیاسی مذاکرات کے دوبارہ آغاز پر زور دیا تھا۔ اُس وقت چینی صدر کا کہنا تھا کہ سیاسی مسائل آئندہ نسلوں کے حوالے کرنا مناسب نہیں ہے۔ اس موقف کے برعکس اب بیجنگ حکومت نے تائیوان کی طرف سے مذاکرات کی اس پیشکش کو فوری طور پر مسترد کر دیا ہے۔

تائیوان حکومت پر داخلی تنقید

تائیوان کی اپوزیشن نے اس نئی حکومتی پیش رفت پر شدید تنقید کی ہے۔ تائیوان میں حزب اختلاف کے سربراہ سو سین چانگ اپنے ملک کی آزادی کے زبردست حامی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کی ما یِنگ جیو کو عوام سے رابطے کی ضرورت ہے نہ کہ بیجنگ سے، ’’انہیں صرف یہ فکر ہے کہ وہ کسی طرح چینی صدر شی سے مل سکیں۔ اپنے عوام کے ساتھ ملاقات کا وہ اتنا شوق نہیں رکھتے۔ ہم ان کے اس طرز عمل کو ٹھیک نہیں سمجھتے اور ہمیں ان کی اس پیشکش پر افسوس ہے۔‘‘

چین اور تائیوان کے مابین تعاون میں اضافے کے لیے کام کرنے والی فاؤنڈیشن ( ایس ای ایف) سے منسلک پروفیسر پانگ جین گاؤ اس حق میں ہیں کہ دونوں ملکوں کے مابین اعلیٰ سطحی رابطوں کا آغاز ہو۔ وہ کہتے ہیں، ’’ یہاں پر دونوں معیشتوں کے رہنماؤں کے مابین ملاقات کی بات کی جا رہی ہے اور وہ بھی ایک منصفانہ انداز میں۔ میرے خیال میں تائیوان میں اس فیصلے کے خلاف کوئی زیادہ مزاحمت نہیں کی جائے گی۔‘‘

پروفیسر پانگ نے مطالبہ کیا ہے کہ چینی صدر کو دباؤ کے باوجود تائیوانی صدر کی مذاکراتی پیشکش کی حمایت کرنی چاہیے۔ سن 2014ء میں ایپک کے سربراہی اجلاس کا انعقاد چین میں ہو گا۔ پروفیسر پانگ کے مطابق اگر چین چاہیے تو ایک سائیڈ لائن ملاقات کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔

ایشیا پیسیفک اقتصادی تعاون کی تنظیم (ایپک) کی بنیاد 1989ء میں رکھی گئی تھی۔ اس کے موجودہ رکن ملکوں کی تعداد اکیس ہے اور اس کے کئی ایک رکن ملک خود مختار ریاستیں بھی نہیں ہیں۔ تائیوان 1991ء میں اس تنظیم کا حصہ بنا تھا جبکہ اسی برس ہی چین اور ہانگ کانگ نے اس میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ہانگ کانگ اس وقت ایک برطانوی کالونی تھا۔