1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چھوٹی اسکرٹ بڑی مصیبت

امتیاز احمد21 جولائی 2015

ملائیشیا میں اسکرٹ پہننے والی خواتین ان دنوں شدید پریشان ہیں کیونکہ ٹانگوں کا زیادہ حصہ عیاں ہونے پر انہیں سرکاری عمارتوں میں داخل ہونے سے روک دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1G25r
Symbolbild Frauen Japan
تصویر: picture alliance/ Franck Robichon

اسلامی دنیا میں اعتدال پسند سمجھے جانے والے ملک ملائیشیا میں نیا ڈریس کوڈ متعارف کروایا گیا ہے، جس کے تحت سرکاری عمارتوں میں مختصر اسکرٹ پہن کر جانے والی خواتین کے داخلے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس حکومتی اقدام کے خلاف سوشل میڈیا اور آزاد خیال حلقوں کی طرف سے شدید تنقید کی جا رہی ہے۔

ملائیشیا کے تجزیہ کاروں کے مطابق ملک میں اچانک ڈریس کوڈ نافذ کر دیا گیا ہے اور آزاد خیال سمجھے جانے والے وزیراعظم نجیب رزاق بھی اس کی مخالفت کرنا نہیں چاہتے کیونکہ ان پر خود کرپشن کے الزامات ہیں اور وہ اس وقت کسی نئے تنازعے کا حصہ بننے سے گریز کریں گے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ڈریس کوڈ کا قانون نسلی حساسیت کو بھی بڑھا سکتا ہے کیونکہ کپڑوں سے متعلق زیادہ تر تنقید ملک کی مسلمان کمیونٹی کی طرف سے کی گئی ہے۔ تقریباﹰ تیس ملین کی آبادی والے ملائیشیا میں مسلمانوں کی تعداد دو تہائی ہے۔ نسلی طور پر چینی باشندوں کی تعداد پچیس فیصد جبکہ بھارتیوں کی تعداد سات فیصد بنتی ہے۔

ملائیشیا میں ٹانگوں کا زیادہ حصہ عیاں ہونے پر سرکاری عمارتوں میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا، اس بارے میں ملائیشیا کے سابق وزیراعظم مہاتیر محمد کی بیٹی اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی مارینا مہاتیر کا کہنا تھا، ’’ اہلکاروں کو فیشن پولیس بننے کے لیے تنخواہیں نہیں دی جاتیں۔‘‘ اس ڈریس کوڈ کی مخالفت میں ان کا کہنا تھا کہ اعلیٰ سطح پر اس کے خلاف کوئی بات نہیں کی جا رہی یہ زیادہ تشویش کی بات ہے۔

مارینا کا کہنا تھا کہ ان کے والد کے بائیس سالہ دور اقتدار میں بھی حکام کی طرف سے ایسے ہی اقدامات کرنےکی کوشش کی گئی تھی، جن کی ان کے والد نے خود مخالفت کی تھی۔ مہاتیر محمد نے بھی کہا ہے کہ حکومت پیچھے ہٹتی جا رہی ہے اور وہ اب ’’سعودی عرب کی طرح عمل‘‘ کر رہی ہے۔

ملائیشیا کی خواتین نے 1970ء کی دہائی میں قدامت پسند اسٹائل اپنانا شروع کیا تھا، جس سے اس امرکی بھی عکاسی ہوتی ہے کہ ملکی سیاست میں مذہب کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔ ملائیشیا کی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نجیب اور ان کی اتحادی جماعت ’متحدہ ملائی قومی تنظیم‘ مذہب کو استعمال کرتے ہوئے اپنے ووٹرز کی تعداد بڑھانا چاہتے ہیں۔