1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چَک ہیگل کے مستعفی ہونے کے محرکات

مائیکل کنیگے ⁄ عابد حسین25 نومبر 2014

مستعفی ہونے والے امریکی وزیر دفاع چَک ہیگل کو پینٹاگون میں قیام کے دوران مسلسل مسائل کا سامنا رہا۔ دوسری جانب کہا جا رہا ہے کہ اب وائٹ ہاؤس خارجہ پالیسی کے نئے چیلنجز کو قابو کرنے کی کوشش میں ہے۔

https://p.dw.com/p/1Dsnx
تصویر: Getty Images/Chip Somodevilla

امریکا کے دفاعی اُمور کی وزارت، ری پبلکن چَک ہیگل کو تفویض کیے جانے کے بعد سے ہی ان کے لیے مشکلات کا آغاز ہو گیا تھا۔ اُن کو کانگریس سے منظوری کے سلسلے میں خاصی سخت شنوائی کا سامنا رہا۔ اُن کے ساتھ سینیٹرز نے خاصی تلخ بحث کی۔ ری پبلکن پارٹی کے سینیئر رہنما اور صدارتی الیکشن ہارنے والے جان مککین نے چَک ہیگل کو اسرائیل اور ایران کے حوالے سے اُن کے پرانے مؤقف پر آڑے ہاتھوں لیا۔ بعض ری پبلکن سینیٹرز نے بھی مککین کی بحث کو انتہائی سخت قرار دیا۔

USA Verteidigungsminister Chuck Hagel zurückgetreten
چَک ہیگلتصویر: Reuters/Y. Gripas

وزارت کا قلمدان سنبھالنے کے بعد وائٹ ہاؤس کے ساتھ چَک ہیگل کے معمول کے تعلقات بتدریج کشیدہ ہوتے چلے گئے۔ یہ صورت حال رواں برس مئی میں خاص نمایاں ہو کر سامنے آ گئی جب نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر سمانتھا پاور نے وزیر دفاع کو ایک یاداشات کے ذریعے مطلع کیا کہ وہ گوانتنامو بے کی جیل سے قیدیوں کی منتقلی کے عمل میں سبک رفتاری پیدا کریں۔ مبصرین کے مطابق اوباما کے انتخابی وعدے کی تکمیل کی ڈیوٹی وزیر دفاع کی ہوتی ہے لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔

چگ ہیگل کے دور میں ایک اور نزاعی معاملہ انتہا پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے ابھرنے کا ہے۔ اِس جہادی گروپ کے خلاف جنگی حکمت عملی مرتب کرنے میں بھی وہ صدر اوباما کی توقعات پر پورا نہیں اُتر سکے۔ عراق و شام میں پھیلی اسلامک اسٹیٹ کے خلاف امریکی کارروائی شروع کرنے کے لیے جو کردار وزیر دفاع کی حیثیت میں چک ہیگل کو ادا کرنا تھا وہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارٹن ڈیمپسی اور صدر اوباما مشترکہ طور پر ادا کرتے رہے۔ اسلامک اسٹیٹ کے حوالے سے امریکی حکمت عمل کو فروغ دینے کے دوران ہیگل تقریباﹰ گُم رہے۔

USA Präsident Barack Obama entlässt Verteidigungsminister Chuck Hagel in Washington
امریکی صدر چَک ہیگل کے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئےتصویر: Reuters/L. Downing

اسلامک اسٹیٹ کے خطرے سے نمٹنے کے حوالے سے امریکی صدر اوباما کا اٹھائیس اگست کا اعترافی بیان بھی اہم سمجھا گیا۔ اوباما نے کہا تھا کہ اسلامک اسٹیٹ کو کنٹرول کرنے کے لیے امریکا کے پاس کوئی اسٹریٹجی نہیں ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اوباما کا یہ بیان واضح طور پر وزیر دفاع پر عدم اطمینان کا عکاس تھا۔ دوسری جانب چَک ہیگل اسلامک اسٹیٹ کے خلاف فوجی قوت کے استعمال پر نا اُمید ہونے کے علاوہ شکُوک و شُبہات رکھتے تھے۔ وہ صدر اوباما کی طرح عراق جنگ کے کڑے ناقدین میں شمار ہوتے تھے۔ بنیادی طور پر اوباما نے چَک ہیگل کو اپنی کابینہ میں خاص طور پر اِس لیے شامل کیا تھا کہ وہ افغان جنگ کو منطفی انجام تک پہنچائیں۔ اِس کے علاوہ امریکی فوجی ہیڈکوارٹرز پینٹاگون کے حجم کو کم کرنا بھی مقصود تھا۔

دوسری جانب زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔ مشرق وسطی ٰ اور یورپ میں امریکی فوجی نشانات کے دھندلانے سے قبل ہی حالات نے پلٹا کھایا۔ اگر مشرق وسطیٰ میں انتہا پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ نے عراق و شام کے وسیع علاقے کو روند ڈالا تو یورپ میں روس کی عسکری مہم جوئی نے عالمی منظر کو نئی نا امیدیوں سے دوچار کر دیا۔ ان حالات کے تناظر میں اب اوباما انتظامیہ نئی جغرافیائی و سیاسی تبدیلیوں کے ساتھ قدم ملانے کی کوشش میں ہے۔ کئی ماہرین کا خیال ہے کہ چَک ہیگل اِس صورت حال کے لیے مناسب نہیں ہیں اور اب اوباما کو ایک نئے فعال وزیر دفاع کی ضرورت ہے۔