1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پنڈی کی جانب مارچ: کیا حمایت کی کمی ہے؟

عبدالستار، اسلام آباد
15 جنوری 2021

پی پی پی اور نون لیگ کی طرف سے پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کا رخ راولپنڈی کی طرف موڑنے کے حوالے سے حمایت کی کمی نظر آرہی ہے۔ پاکستان میں اب کئی حلقے یہ سوال کر رہے ہیں کہ مارچ پنڈی کی طرف ہوگا یا اسلام آباد کی طرف۔

https://p.dw.com/p/3nyab
Wahlen in Pakistan I  Bilawal Bhutto Zardari
تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے صدر اور جے یو آئی ایف کے امیر مولانا فضل الرحمان نے چند روز قبل اس بات کا اشارہ کیا تھا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا لانگ مارچ پنڈی کی طرف بھی ہوسکتا ہے، جہاں ملک کی طاقت ور فوج کا مرکزی دفتر ہے، جسے جنرل ہیڈ کوارٹر یا 'جی ایچ کیو‘  بھی کہا جاتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے اس بیان کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل افتخار کا جوابی بیان بھی سامنے آیا تھا کہ اگر مارچ پنڈی کی طرف ہوا تو وہ مارچ کے شرکا کو چائے پانی پیش کریں گے۔

پاکستان میں اب کئی ناقدین کا کہنا ہے کہ پی پی پی اور ن لیگ پنڈی کی طرف اس مارچ کی حمایت نہیں کرتی۔ انگریزی روزنامہ دی نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اس بات کے حامی نہیں کہ لانگ مارچ راولپنڈی کی طرف کیا جائے جب کہ پی پی پی کے رہنما قمر زمان کائرہ کے خیال میں بھی مارچ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی طرف ہونا چاہیے۔

پنڈی مارچ صرف ایک سیاسی جماعت کی خواہش

پی پی پی کے رہنما وار سابق رکن قومی اسمبلی چوہدری منظور نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ راولپنڈی کی طرف مارچ کسی ایک پارٹی کی خواہش ہو سکتی ہے لیکن یہ پی ڈی ایم کا مشترکہ فیصلہ نہیں ہے۔ چوہدری منظور کے بقول، ''سیاسی اتحادوں میں چیزیں خواہشات پر نہیں چلتی بلکہ اتفاق رائے سے ہونے والے فیصلوں پر چلتی ہیں۔ پی ڈی ایم نے مارچ کے حوالے سے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ پہلے ہم اپنی پارٹی میں مارچ کے حوالے سے فیصلہ کریں گے جیسا کہ ہم نے سینیٹ انتخابات کے حوالے سے کیا اور پھر اس فیصلے کو لے کر ہم پی ڈی ایم میں جائیں گے۔ بعد میں جو بھی فیصلہ ہوگا، اس پرعمل کریں گے۔‘‘

لاہور میں پی ڈی ایم کا جلسہ
لاہور میں پی ڈی ایم کا جلسہتصویر: DW/T. Shahzad

اپوزیشن جماعتوں کی تحریک پی ڈی ایم میں شامل نیشنل پارٹی کے سینیٹر اکرم بلوچ کا کہنا ہے کہ زیادہ تر سیاسی جماعتوں کی رائے یہی ہے کہ مارچ اسلام آباد کی طرف ہونا چاہیے۔ اکرم بلوچ کے بقول، ''سیاسی جماعتیں بلاوجہ اسٹیبلشمنٹ کو مشتعل کرنا نہیں چاہتیں۔‘‘

'اسٹیبلشمنٹ کا سیاست اور انتخابات سے کوئی تعلق نہیں‘

پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنما سینیٹر عثمان کاکڑ کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم کسی سے خوفزدہ نہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ ابھی تک یہ فیصلہ نہیں ہوا کہ مارچ کا رخ کس طرف ہوگا۔ سینیٹر عثمان کاکڑ کے بقول، ''اگر پی ڈی ایم فیصلہ کرتی ہے کہ مارچ پنڈی کی طرف ہوگا تو ساری جماعتیں اس فیصلے کی پابندی کریں گی۔‘‘

یہ بھی پڑھیے: عمران خان اب این آر او مانگ رہے ہیں، مریم نواز

ان کا مذید کہنا تھا کہ پی ڈی ایم میں تحریک کے مقاصد کے حوالے سے کوئی ابہام یا اختلاف نہیں ہے۔ سینیٹر کاکڑ نے کہا، ''ہماری تحریک کا مقصد بالکل واضح ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور خفیہ اداروں کا سیاست اور انتخابات سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارا آئین اور قانون یہی کہتا ہے۔ تو ہم سویلین بالا دستی اور آئین کی بالا دستی کے حوالے سے بالکل واضح موقف رکھتے ہیں۔‘‘

اکتیس جنوری تک مارچ کا فیصلہ

مولانا فضل الرحمن کے بیان کے بعد پی ٹی آئی اور مختلف حلقوں کی طرف سے سخت رد عمل آیا تھا۔ جے یو آئی ایف کے ناقدین کا خیال ہے کہ زیرک سیاست دان اس ردعمل کے بعد تھوڑے دھیمے ہوگئے ہیں۔ تاہم جے یو آئی ایف اس تاثر کو غلط قرار دیتی ہے۔ پارٹی کی شوریٰ کے رکن جلا ل الدین کا کہنا ہے کہ مولانا ڈرنے والوں میں سے نہیں ہیں اور اکتیس جنوری تک کی ڈید لائن ہے، اس کے بعد لانگ مارچ کا فیصلہ ہوگا۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے رہنماؤں کا لاہور میں اجلاس
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے رہنماؤں کا لاہور میں اجلاستصویر: Tanvir Shahzad/DW

ان کا مذید کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے خلاف الیکشن کمیشن میں مضبوط کیس ہے۔ انہوں نے کہا، ''اگر الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو بچایا تو ہم سپریم کورٹ میں جائیں گے اور اگر کسی حلقے کی طرف سے عمران خان کو بچانے کی کوشش کی گئی تو پھر ایک بھر پور جدوجہد شروع کی جائے گی، جو اس حکومت کے خاتمے پر ہی اختتام پذید ہوگی۔‘‘

پنڈی مارچ، ایک بلواسطہ دھمکی

پاکستان میں کئی ناقدین کا خیال ہے کہ سیاسی جماعتیں اب اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور نہ ہی وہ اس کو ناراض کرنا چاہتی ہیں۔ معروف تجزیہ نگارسہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم کی کوئی بھی جماعت اسٹیبلشمنٹ کو مشتعل نہیں کرنا چاہتی۔ سہیل وڑائچ کے بقول، ''پی ڈی ایم اسٹیبلشمنٹ کو ناراض کر کے کسی کریک ڈاؤن کو دعوت دینا نہیں چاہتی اور نہ ہی وہ اسے برداشت کر سکتے ہیں، لہٰذا کریک ڈاؤن کا خطرہ انہیں پنڈی کی طرف مارچ کرنے سے بھی روکے گا۔‘‘

یہ بھی پڑھیے: کیا اسٹیبلشمنٹ اپوزیشن کے سامنے گھٹنے ٹیک دے گی؟

سہیل وڑائچ کا مذید کہنا تھا کہ مولانا کا پنڈی کی طرف مارچ کرنے کا بیان ایک درپردہ یا بلواسطہ دھمکی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس حکومت کی حد سے زیادہ حمایت نہ کرے۔

ملتان میں پی ڈی ایم کا جلسہ
ملتان میں پی ڈی ایم کا جلسہتصویر: Asim Tanveer/AP/picture-alliance

دوسری جانب حکومتی جماعت پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ پنڈی کی طرف مارچ کی باتیں صرف گیڈر بھبکی ہے۔ پارٹی کے رکن قومی اسمبلی خیال زمان اورکزئی کا کہنا ہے کہ اگر کوئی مارچ ہوتا ہے تو قانون حرکت میں آئے گا۔ ان کے بقول، ''مولانا کو ن لیگ اور پی پی پی استعمال کر رہی ہیں۔ پی ڈی ایم شکست خوردہ عناصر کا ایک ٹولہ ہے، جو حکومت کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔ ان میں اتنی ہمت نہیں کہ یہ پنڈی آئیں۔‘‘

ریلیف حاصل کرنے کی پالیسی

حال ہی میں جے یو آئی ایف چھوڑ کر جانے والے پارٹی کے سابق نائب امیر و ترجمان حافظ حسین احمد کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کا بیان ایک چالاک پالیسی کا حصہ ہے۔ حافظ حسین احمد کے مطابق پی ڈی ایم میں جے یو آئی ایف سخت پالیسی اپناتی ہے اور ن لیگ و پی پی پی اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ان کے بقول، ''آزادی مارچ ہوا تو نوازشریف کو علاج کے لیے بھیجنے کی ڈیل ہوئی۔ پی ڈی ایم بنی تو زرداری کے کراچی مقدمات شفٹ ہوئے اور اب اس بیان کے بعد بھی پی ڈی ایم کی جماعتیں حکومت سے کوئی نہ کوئی فائدہ اٹھائیں گی یا فوج سے ریلیف حاصل کریں گی۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں