پڑھنے یا لکھنے کے بغیر زندگی کی محرومیوں کا اندازہ ممکن نہیں
14 اکتوبر 2019ذرا سوچیے کہ پڑھنے یا لکھنے کے بغیر زندگی کیسی ہو گی۔ بچوں کو سونے سے قبل کوئی کہانی سنانے کی محرومی اور ماں کے عالمی دن پر نیک خواہشات کا کارڈ نہ لکھنے کا المیہ یا پھر ادویات کے استعمال کے لیے لکھی ہوئی ہدایت کو نہ سمجھ سکنا یا پھر اخبار میں تازہ ترین علاقائی صورت حال اور دوسری خبروں سے آگہی نہ حاصل کر سکنا۔ زیادہ تر پڑھے لکھے افراد محسوس کر سکتے ہیں کہ تعلیم کے بغیر دنیا کا حجم کتنا مختصر ہو سکتا ہے۔
ہیمبرگ یونیورسٹی کی ایک نئی ریسرچ رواں برس مئی میں برلن حکام کے سامنے پیش کی گئی اور اس میں واضح کیا گیا کہ جرمنی میں اٹھارہ سے چونسٹھ سال تک کی عمر کے بارہ فیصد سے زائد ایسے افراد ہیں جو معمولی سے خواندہ ہیں۔ معمولی سے خواندہ افراد کی مجموعی جرمن آبادی میں تعداد باسٹھ لاکھ بنتی ہے۔
ریسرچ کے مطابق ان باسٹھ لاکھ افراد میں وہ بھی شامل ہیں جو خط پڑھ سکنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ وہ بھی شامل ہیں جنہیں جملے پڑھنے میں مشکل کا سامنا ہوتا ہے اور وہ بھی جو قدرے لمبے جملے یا پیراگراف کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ سمجھنے میں دِقت محسوس کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ وہ بھی شامل ہیں جو پڑھ سکتے ہیں لیکن لکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
ریسرچ میں کئی ڈھلتی عمر کے افراد کا احوال شامل ہے جنہوں نے پڑھنے اور لکھنے کی ہمت کی۔ ان میں سے ایک خاتون کیرسٹن گولڈ اشٹائن ہیں، انہوں نے تقریباً ساٹھ برس کے قریب اپنی علمی استعداد بڑھانے کے سلسلے کو شروع کیا۔ جرمن شہر ٹریئر کی اس رہائشی خاتون کو روزمرہ کے معاملات سمجھنے میں مشکلات کا سامنا تھا اور اس کے تدارک کے لیے پڑھنا شروع کیا۔
ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کیرسٹن گولڈ اشٹائن نے کہا کہ اس وقت وہ بات چیت کرنے میں کوئی پریشانی محسوس نہیں کر رہی ہیں لیکن دو برس قبل وہ کچھ کہتے وقت پراعتماد نہیں ہوتی تھیں اور اب و لکھنے اور پڑھنے میں یقینی طور پر بہتری محسوس کرتی ہیں۔
گولڈ اشٹائن کے مطابق انہیں لوگوں میں مناسب لکھنے میں مشکل کی وجہ سے شرمندگی کا بھی سامنا کرنا پڑتا تھا۔گولڈ اشٹائن کے مطابق پچھلے دو برسوں کے دوران لکھنا تو شروع کر دیا ہے لیکن وہ کتاب پڑھنا چاہتی ہیں لیکن اس میں ابھی وقت درکار ہے۔
دوسری جانب کئی مصنفین نے اپنی کتابوں کے ایسے نئے ایڈیشن بھی شائع کیے ہیں جنہیں انتہائی آسان فہم انداز میں ازسرنو تحریر کیا گیا تا کہ کم پڑھے لکھے افراد بھی اُن کی کتابوں کا لطف اٹھا سکیں۔ ان میں ایک جرمن ادیب وولف گانگ ہیرنڈورف بھی ہیں جنہوں نے کم خواندہ افراد کے لیے اپنے نئے ناول کو دوبارہ سے آسان زبان میں تحریر کیا ہے۔
جرمنی میں زندہ ادیبوں کی لکھی ہوئی کتابوں کے آسان انداز ایڈیشن شائع کرنے کی تحریک کو وولفگانگ ہینڈورف نے منظم کیا ہے۔ ہیرنڈورف کی حال ہی میں اڑتالیس برس کی عمر میں انتقال ہو گیا ہے۔ انتہائی معمولی پڑھے لکھے افراد کے لیے تعلیم فراہم کرنے کی نگرانی ایک قومی تنظیم (Bundesverband Alphabetisierung und Grundbildung e.V.) کرتی ہے۔
جرمنی کی نیشنل ایسوسی ایشن برائے خواندگی اور بنیادی تعلیم کے سربراہ ٹم ہیننگ کا کہنا ہے کہ باسٹھ لاکھ معمولی پڑھے لکھے افراد میں تعلیم بہتر کرنے کا کم رجحان ہے اور ان میں سے صرف تیس ہزار کے قریب افراد نے خواندگی بڑھانے کے خصوصی مراکز یا اسکولوں کا رخ کیا ہے۔
جرمنی بھر میں بنیادی تعلیم کی اس تنظیم کے ایسے کارکنوں کی تعداد ایک سو کے قریب ہے جو کم پڑھے لکھے افراد کو مزید تعلیم کی جانب راغب کرنے کی کوششوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
لوئیزا شیفر (عابد حسین)