پولینڈ کے موجودہ رہنما ’یا غدار یا بالکل بےوقوف‘، لیخ ولینسا
29 ستمبر 2018لیخ ولینسا نے، اپنے 75 ویں سالگرہ کے موقع پر ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ انہوں نے ابھی تک عملی سیاست کو خیرباد کہنے کے بارے میں نہیں سوچا اور جس راستے پر پولینڈ کے موجودہ رہنما اس یورپی ملک کو لے کر جا رہے ہیں، وہ ایک ’خطرناک‘ راستہ ہے۔
لیخ ولینسا کے بارے میں اہم بات یہ بھی ہے کہ وہ ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئے تھے اور ان کے والد ایک نازی جرمن مشقتی کیمپ میں تشدد کے نتیجے میں انتقال کر گئے تھے۔ 1980ء سے لے کر 1990ء تک ولینسا پولستانی مزدوروں کی ٹریڈ یونین ’سالیڈیریٹی‘ کے سربراہ رہے تھے۔ اسی دور میں پولینڈ میں اشتراکی نظام حکومت ناکامی سے دوچار ہوا تھا اور اسی پیش رفت کے بعد دیوار برلن کا انہدام ممکن ہوا تھا۔
مشرقی یورپ میں بڑی سیاسی تبدیلیوں کی وجہ سے لیخ ولینسا کو 1983ء میں امن کا نوبل انعام بھی دیا گیا تھا۔ 1990ء سے لے کر 1995ء تک وہ ایک جمہوری ریاست کے طور پر پولینڈ کے پہلے آزادانہ طور پر منتخب ہونے والے صدر بھی رہے تھے۔ قریب ایک چوتھائی صدی پہلے پولستانی سربراہ مملکت کے طور پر پولینڈ سے سوویت دستوں کے انخلاء کا معاہدہ بھی صدر لیخ ولینسا کے دور ہی میں طے پایا تھا۔
اس انٹرویو میں اپنی نجی اور سیاسی زندگی کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں لیخ ولینسا نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ وہ اپنے زندگی کے وہ تمام اہداف حاصل کر چکے ہیں، جن کے خواب انہوں نے دیکھے تھے۔ انہوں نے کہا، ’’میری زندگی کے دو بڑے مقاصد تھے۔ پولینڈ کے لیے آزادی کو پھر سے یقینی بنانا اور جمہوریت۔ ہمارا ملک یہ دونوں مقاصد حاصل کر چکا ہے۔‘‘
لیخ ولینسا نے تاہم اس بارے میں عدم اطمینان کا اظہار کیا کہ آج کے پولینڈ میں جمہوریت کی حالت یہ ہے کہ پولستانی عوام کو وارسا میں موجودہ حکمران جماعت کے سربراہ لیخ کاچنسکی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جیسے رہنماؤں سے جذباتی تحریک ملتی ہے۔‘‘
وارسا میں موجودہ ملکی حکومت کو مغربی یورپ اور یورپی یونین کے باقی رکن ممالک میں زیادہ سیاسی ستائشی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا، اس کی کیا وجہ ہے؟ اس سوال کے جواب میں سابق پولستانی صدر لیخ ولینسا نے کہا، ’’پولینڈ میں اس وقت جو لوگ اقتدار میں ہیں، وہ ان ذمے داریوں کے لیے موزوں ہیں ہی نہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں اب تنگ نظر حکمرانوں کے ساتھ گزارہ کرنا پڑ رہا ہے۔‘‘
اس انٹرویو میں لیخ ولینسا نے یہ بھی کہا کہ موجودہ پولستانی حکمرانوں نے اس ملک کو جہاں تک پہنچا دیا ہے، وہاں پولینڈ اور اس کے عوام کو عالمگیر سطح پر یکجہتی کے اظہار کی ضرورت ہے، تاکہ پولینڈ کی آج تک حاصل کی گئی جمہوری کامیابیاں ضائع نہ ہوں۔
وارسا میں موجودہ حکومت جس طرح کئی متنازعہ قانونی اصلاحات کر رہی ہے اور عدلیہ اور قانون کی بالادستی پر بھی اثر انداز ہونے کی کاوشیں کر رہی ہے، جس پر یورپی یونین کو شدید تحفظات ہیں، اس بارے میں لیخ ولینسا نے کہا، ’’جس طرح موجودہ حکمران یورپی یونین کے ساتھ ٹکراؤ کے راستے پر چل رہے ہیں اور جیسے جرمنی کے خلاف گھسے پٹے روایتی زبانی حملے کیے جا رہے ہیں، وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ وارسا میں موجودہ حکمران پرانے زخموں کو پھر سے کرید رہے ہیں۔ وہ عوام میں جرمنی کے خلاف جذبات کو ہوا دیتے ہوئے ان جذبات سے فائدے اٹھا رہے ہیں۔‘‘
سابق پولستانی صدر ولینسا نے کہا، ’’یہ حکمران نفرتوں کو ہوا دے رہے ہیں۔ وہ مجھے بھی اس لیے ’ایجنٹ‘ قرار دیتے ہیں کہ یہ الزام انہیں الیکشن جیتنے میں مدد دیتا ہے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ وہ یہ دیکھتے ہی نہیں کہ وہ اپنی سیاست سے پولینڈ کو کتنا نقصان پہنچا رہے ہیں۔ یہ لوگ پولینڈ کے دشمن ہیں، غدار ہیں یا قطعی طور پر بے وقوف لوگ؟ مجھے تو لگتا ہے کہ وہ یا تو غدار ہیں یا پھر قطعی طور پر بے وقوف افراد۔‘‘
اس بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہ موجودہ حالات میں جرمنی کو کس طرح کا رویہ اختیار کرنا چاہیے، لیخ ولینسا نے کہا، ’’جرمنوں نے، جنہوں نے نازی دور میں پولینڈ پر قبضہ کر لیا تھا، آج کے دور میں وہی کرنا چاہیے، جو وہ کر رہے ہیں اور جو کچھ انہوں نے مشرقی یورپ میں کمیونزم کے خاتمے کے بعد سے اب تک کیا ہے۔ جرمنی پولینڈ کی مدد کر سکتا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے دور کی تلخیاں بھلاتے ہوئے جرمنی اور پولینڈ کے مابین مکمل مفاہمت کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس مصالحتی عمل کو کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔‘‘
دُودیک بارتوش / م م / ع ت