1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’پولیس اور سکیورٹی کے سابقہ اہلکار قتل یا لاپتہ ہو رہے ہیں‘

30 نومبر 2021

طالبان حکومت کے دور میں سابقہ حکومت کے پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکتوں یا ان کے جبری لاپتہ ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ بات انسانی حقوق کی ایک بین الاقوامی تنظیم ایچ آر ڈبلیو نے اپنی ایک رپورٹ میں بیان کی ہے۔

https://p.dw.com/p/43eqp
Afghanistan | Taliban Kämpfer in Kabul
تصویر: Oliver Weiken/dpa/picture alliance

انسانی حقوق پر نگاہ رکھنے والی انٹرنیشنل تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے افغانستان کے بارے میں ایک تازہ رپورٹ منگل تیس نومبر کو شائع کی ہے۔ اس رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ طالبان عسکریت پسندوں کے ہاتھوں سابقہ دورِ حکومت کے پولیس اور سکیورٹی سے تعلق رکھنے والے فارغ شدہ اہلکاروں کے قتل یا ان کے جبری طور پر لاپتہ ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ ہلاکتیں عام معافی کے اعلان کے باوجود رونما ہو رہی ہیں۔

دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے، ملا محمد حسن آخوند

پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکتیں یا گمشدگیاں

ایچ آر ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق طالبان حکومت کے مسلح کارندوں کے ہاتھوں ایک سو سے زائد ایسے افراد کو ہلاک یا انہیں جبری طور پر ان کے ٹھکانوں سے اٹھایا گیا اور ایسے افراد ابھی تک بظاہر لاپتہ ہیں۔

Afghanistan l Taliban kontrollieren Straßen in Kabul
طالبان حکومت کے مقامی کمانڈروں نے بھی سابقہ پولیس اور فوج کے اہلکاروں کی تلاش کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہےتصویر: Wali Sabawoon/AP/dpa/picture alliance

اس رپورٹ میں ان کارروائیوں کو سابقہ حکومت میں فوج اور پولیس کی اقدامات کے جواب میں انتقامی سلسلہ قرار دیا گیا ہے۔

رپورٹ میں بیان کیا گیا کہ طالبان عسکریت پسند حکومتی ریکارڈ کی مدد سے ایسے افراد کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں جنہوں نے عسکریت پسندوں کو ہدف بنایا تھا۔ ان میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جنہوں نے خود کو سرنڈر کر دیا اور انہیں عام معافی کا حکومتی خط بھی دیا گیا۔

افغان ہزارہ رہنماؤں کا طالبان حکومت کی حمایت کا اعلان

انسانی حقوق کی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق مقامی طالبان کمانڈروں نے اپنی فہرستیں بنائی ہیں اور ان میں درج افراد کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ ناقابلِ معافی اقدامات کے مرتکب ہیں۔

خوف و ہراس کی فضا

ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ طالبان کے مسلح کارکنوں کی ان وارداتوں سے ہونے والی ہلاکتوں نے ملک کے کئی حصوں میں خوف و ہراس کی فضا پیدا کر دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایسے سبھی افراد اعلانیہ طور پر سابقہ حکومت سے لاتعلقی بیان کرتے پھرتے ہیں اور اس کوشش میں ہیں کہ موجودہ حکومت کے کارکنوں کے ساتھ راہ و رسم بڑھا کر رکھیں کیونکہ اسی میں انہی کی زندگیاں محفوظ رہ سکتی ہیں۔

Afghanistan Kandahar Selbstmordattentat des IS auf Schiiten-Moschee
افغان صوبے ننگرہار میں سرگرم دولت اسلامیہ نے طالبان حکومت کے دوران شیعہ مسلمانوں کی مساجد کو نشانہ بنایا ہےتصویر: Shiite Coordination Council of Afghanistan

طالبان کا نشانہ

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق طالبان کے عام معافی کے وعدے نے مقامی کمانڈروں کو انتقامی کارروائیوں سے نہیں رو کا اور وہ فوج، خفیہ اداروں اور پولیس کے اہلکاروں کو بتدریج نشانہ بنا رہے ہیں۔

طالبان حکومت کے ایک سو ایام، کئی چیلنجز اور بے شمار مسائل

دوسری جانب افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے وزیر اعظم محمد حسن اخوند نے ستائیس نومبر کو ایک عوامی جلسے میں لوگوں سے تقریر کرتے ہوئے انتقامی کارروائیوں کی ممکنہ رپورٹوں کی تردید کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی سابقہ اہلکار غلط کام کرے گا تو اس کو جرم کے مطابق سزا دی جائے گی۔

دولت اسلامیہ کے کارکن بھی نشانے پر

ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ ننگرہار صوبے میں دہشت گرد جہادی گروپ اسلامک اسٹیٹ یا دولت اسلامیہ سے تعلق رکھنے والے مشتبہ افراد اور ان سے ہمدردی رکھنے والوں کو بھی ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔

Afghanistan Symbolbild Vormarsch der Taliban Kunduz
طالبان عسکریت پسندوں کے ہاتھوں ایک سو سے زائد فوجی یا پولیس کے سابقہ اہلکار ہلاک ہو چکے ہیںتصویر: Ajmal Kakar/Xinhua/imago images

اسی صوبے میں گزشتہ منگل کو طالبان عسکریت پسندوں نے دولت اسلامیہ کے جہادیوں کے ایک ٹھکانے پر دھاوا بولا تھا اور اس کے بعد اطراف میں شدید فائرنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہ جھڑپ قریب آٹھ گھنٹے سے زائد جاری رہی تھی۔

طالبان کے نئے مذہبی ضوابط، خواتین فنکاروں کو ٹی وی پر نہ دکھانے کی ہدایات

ننگرہار کے خفیہ ادارے کے سربراہ طاہر مبریز کا کہنا ہے کہ اس فائرنگ کے تبادلے کے دوران ایک مرد اور ایک عورت نے اپنی بارودی جیکٹوں کو اڑا دیا تھا اور دو مشتبہ جہادیوں کو حراست میں بھی لیا گیا۔

ع ح/ ع ب (اے پی)