1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پنجاب کی نگران کابینہ: کون کون شامل اور کون کس کا رشتہ دار؟

27 جنوری 2023

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں آٹھ رکنی نگران کابینہ نے جمعے کے روز اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔ کابینہ میں شامل زیادہ تر وزیروں کا موجودہ تعلق لاہور سے ہے جبکہ صوبے کے کئی اہم علاقے نمائندگی سے محروم ہیں۔

https://p.dw.com/p/4MnrS
Symbolbild Pakistan Lahore Gericht Gerichtsurteil
تصویر: Irfan Ali/AA/picture alliance

نگران کابینہ کے زیادہ تر افراد لاہور کے رہائشی ہیں اور پورےپنجاب کی نمائندگی کہیں بھی نظر نہیں آ رہی۔ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس صوبائی نگران کابینہ پر نگران وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی کی دوستی کا رنگ نمایاں ہے اور وزرا کے انتخاب میں ان کے با اعتماد ہونے کے عمل کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔

 تجزیہ نگار جاوید فاروقی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وزراء کی لسٹ دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ انتخاب اس بات کو دھیان میں رکھ کر کیا گیا ہے کہ اس نگران حکومت کی مدت تین ماہ سے بڑھ کر آٹھ ماہ تک بھی جا سکتی ہے۔

یاد رہے انتخابات کروانے کے لیے ایک ایسے وقت میں نگران حکومت کو صوبے میں اتارا گیا ہے، جب الیکشن شیڈول کا اعلان ہی نہیں ہو سکا اور ملک میں انتخابات کے التوا کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔

صحافی عامر خاکوانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس نگران کابینہ کی اچھی بات یہ ہے کہ اس میں متنازعہ شخصیات نظر نہیں آ رہی ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس سے بہتر کابینہ بھی بنائی جا سکتی تھی۔ ان کے خیال میں نگران حکومت میں غیر جانب دار اور اچھی ساکھ کی حامل ایسی شخصیات کو شامل کیا جاتا ہے، جو انتظامی امور کا وسیع تجربہ رکھتی ہوں۔

اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد کا سیاسی منظر نامہ

پنجاب کی نگران حکومت کے لئے ابتدائی طور پر گیارہ افراد کے نام سامنے آئے تھے لیکن صحافی تمکنت کریم اور بیوروکریٹ نسیم صادق نے مبینہ طور پر کابینہ میں شامل ہونے سے معذرت کر لی ہے جبکہ کرکٹر وہاب ریاض بنگلہ دیش میں کرکٹ کھیلنے کی وجہ سے حلف نہیں اٹھا سکے۔  ذرائع نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ آنے والے دنوں میں نگران صوبائی کابینہ میں مزید توسیع کی جا سکتی ہے۔

کون سی وزارت کس کو دی گئی ہے؟

گزشتہ رات گورنر ہاوس میں حلف اٹھانے والوں میں بلال افضل، ایس ایم تنویر، ڈاکٹر جاوید اکرم، ابراہیم مراد، ڈاکٹر جمال ناصر، منصور قادر، سید اظفر علی ناصراور عامر میر شامل ہیں۔

ایس ایم تنویر

معروف بزنس مین اور ایوان ہائے صنعت و تجارت کے سابق صدر مرحوم ایس ایم منیر کے صاحبزادے ایس ایم تنویر کو توانائی، صنعت، تجارت اور سرمایہ کاری کے محکموں کا قلمدان دیا گیا ہے۔ ایس ایم تنویر کا تعلق ٹیکسٹائل سیکٹر سے رہا ہے اور وہ آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ وہ اپٹما کے چئیرمین کے طور پر حکومتوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں اور اپنے دور میں وہ ٹیکسٹائل سیکٹر کو احتجاجاﹰ بند کرنے کی دھمکیاں بھی دیتے رہے ہیں۔

اظفر علی ناصر

پنجاب کی نگران صوبائی کابینہ میں زکوت، عشر اور اوقاف کی وزارتیں بزنس میں اظفر علی ناصر کو دی گئی ہیں۔ اظفر علی ناصر کی فیملی کراچی سے آ کر لاہور میں آباد ہوئی تھی۔ پیشے کے اعتبار سے بزنس مین اظفر نے برطانیہ سے بیرسٹری کا امتحان پاس کر رکھا ہے۔ ان کا ٹائلز، امپورٹس اور ایکسپورٹس کا بزنس ہے۔ معروف دانشور ڈاکٹر سعید الہی کے مطابق ان کی شہرت ایک اچھی ساکھ والے انسان دوست شخص کی ہے۔ وہ ہلال احمر پاکستان کی مینجنگ کمیٹی کے ممبر بھی رہے ہیں۔ ان کا خاندان سماجی خدمت کے کئی منصوبے چلاتا رہا ہے۔

ڈاکٹر جمال ناصر

ڈاکٹر جمال ناصر پیشے کے مطابق پیتھالوجسٹ ہیں اور وہ سٹی لیب کے مالک ہیں، ان کا تعلق راوالپنڈی سے ہے۔ وہ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے منتخب عہدیدار بھی رہے ہیں۔ ان کا کالم روزنامہ نوائے وقت میں چھپتا رہا ہے۔ ڈاکٹر جمال بھی ہلال احمر پاکستان کی مینجنگ کمیٹی کے رکن رہے ہیں۔

صحافی عامر میر

پنجاب کی صوبائی نگران کابینہ میں انفارمیشن اینڈ کلچر کا قلمدان پاکستان کے صحافی عامر میر کے حصے میں آیا ہے۔ وہ پاکستان کے نامور  پروفیسر وارث میر کے صاحب زادے اور معروف تجزیہ نگار حامد میر کے بھائی ہیں۔ عامر میر پاکستان کے متعدد قومی روزناموں اور ٹی وی چینلز کے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔ وہ ڈان گروپ کے میگزین ہیرالڈ کے ڈپٹی ایڈیٹر اور ویکلی انڈیپنڈنٹ کے ایڈیٹر رہے ہیں۔ وہ متعدد کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔

عامر میر لاہور پریس کلب کے سابق صدر بھی رہے ہیں۔ سن دو ہزار پانچ میں آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی کی طرف سے انہیں بہترین رپورٹر کا ایوارڈ دیا گیا تھا لیکن انہوں نے اس وقت کے فوجی حکمران جنرل مشرف کے ہاتھوں سے یہ ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا تھا۔ عامر آج کل اپنا یو ٹیوب چینل چلا رہے ہیں۔

 ڈاکٹر جاوید اکرم

سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اور میڈیکل ایجوکیشن کی وزارت ڈاکٹر جاوید اکرم کے حصے میں آئی ہے، جن کا اپنا ہسپتال اکرم کمپلیکس کے نام سے نجی شعبے میں کاروباری خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ وہ مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے مرحوم پرویز ملک کے بھائی، مسلم لیگ نون کے ممبر قومی اسمبلی علی پرویز ملک کے چچا، مسلم لیگ نون کی رہنما شائستہ پرویز ملک کے دیور اور ایک متنازعہ جج قیوم ملک کے بھائی ہیں۔ وہ لاہور کی یونیورسٹی آف ہیلتھ کے وائس چانسلر بھی رہے ہیں۔

ابراہیم حسن مراد

لوکل گورنمنٹ اور کمیونٹی ڈیویلپمنٹ کے محکمے نوجوان ابراہیم حسن مراد کو ملے ہیں، جو کہ لاہور کے ایک نجی تعلیمی ادارے یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی کے صدر ہیں۔ وہ معروف ماہر تعلیم ڈاکٹر حسن مراد کے صاحبزادے اور جماعت اسلامی پاکستان کے سابق نائب امیر خرم مراد کے پوتے ہیں۔

بلال افضل

بلال افضل پاکستان کے ایک بڑے نجی تعلیمی گروپ، پنجاب گروپ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹڑ  سہیل افضل کے صاحبزادے ہیں اور سوشل میڈیا میں ان کے پروفائل میں ان کا تعارف پنجاب گروپ آف کالجز کے ڈائریکٹر کے طور پر درج ہے۔ انہیں کمیونیکیشن، ورکس، ایکسائز ٹیکسیشن اور نارکوٹکس کے محکمے دیے گئے ہیں۔ ان کے والد سہیل افضل کو مشرف دور میں نگران صوبائی وزیر بنایا گیا تھا۔ معروف بزنس مین میاں عامر کے ساتھ بلال افضل کے خاندان کی قریبی شراکت داری بیان کی جاتی ہے۔

 منصور قادر

ہائیر ایجوکیشن اور سکول ایجوکیشن کے محکمے ایک سابق بیوروکریٹ منصور قادر کو دیے گئے ہیں، جو اپنی ملازمت کے دوران مختلف شہروں میں مختلف انتظامی عہدوں پر فائز رہے ہیں۔

کالم نگار عامر خاکوانی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ کابینہ مہنگائی اور امن و امان کے چیلنجز سے نمٹ سکے گی۔

پاکستان میں مرکز اور صوبوں کے درمیان کشیدگی کا تاریخی پس منظر

صحافی رضوان رضی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پنجاب کی نگران کابینہ میں تعلیم، صحت، پراپرٹی اور میڈیا سے وابستہ افراد کا غلبہ دکھائی دیتا ہے۔ ان کے مطابق ان کی نمائندگی دیکھ کر اس معاشرے کے بالادست طبقات کی ہیت ترکیبی کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر کچھ لوگ یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ الیکشن ایک آئینی تقاضا ہے اور الیکشن کے ملتوی کیے جانے کی صورت میں کیا یہ وزرا آئین کے ساتھ کھڑے ہو سکیں گے؟