1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پناہ کی درخواستوں پر فیصلہ، ہالینڈ کا ’معیاری ماڈل‘

9 اگست 2018

ہالینڈ میں سیاسی پناہ کے درخواستوں کو منظور یا مسترد کیے جانے کا فیصلہ صرف آٹھ روزمیں کیا جاتا ہے جبکہ جرمنی میں اس سلسلے میں اوسطاً آٹھ ماہ لگ جاتے ہیں۔ماہرین کے مطابق ہالینڈ میں سیاسی پناہ کا نظام ایک ’معیاری ماڈل‘ ہے۔

https://p.dw.com/p/32sWM
Niederlande -  Flüchtlinge kommen in einem ehemaligen Gefängnis in Amsterdam unter
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen

 

ہالینڈ میں موجود سیاسی پناہ کے قوانین کو یورپ کے تمام ممالک میں سب سے زیادہ سخت مانا جاتا ہے۔ شاید پناہ کی درخواستوں پر جلد سنائے جانے والے فیصلے اس کی وجہ ہیں۔

جرمنی کی میونسٹر یونیورسٹی میں مہاجرت کے امور پر تحقیق کرنے والے ڈیٹر تھرینہارڈٹ سمجھتے ہیں کہ ’ہالینڈ میں سیاسی پناہ کا نظام ایک ’معیاری ماڈل‘ ہے۔‘

جرمنی اور ہالینڈ میں مقیم پناہ گزینوں کے لیے سیاسی پناہ کی درخواست جمع کروانے کے طریقہ کار میں پہلا بنیادی فرق یہ ہے کہ ہالینڈ میں پناہ کے تقریباً تمام متلاشیوں کو ’ٹیر آپل‘ نامی شہر بھیجا جاتا ہے، جو کہ ہالینڈ کے شمال مشرق میں واقع ہے۔ رفیوجی سینٹر میں اندراج کے فوری بعد مہاجرین کے لیے ایک وکیل مختص کیا جاتا ہے۔ ہالینڈ میں ادارہ برائے پناہ گزین و مہاجرت کے نائب ڈائریکٹر جوئل شونے فیلڈ نے خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا، ’’جب ہمارے سامنے تمام حقائق بروقت رکھے جائیں تو درخواستوں پر جلدی فیصلہ کرنا زیادہ آسان ہوجاتا ہے۔‘‘

ہالینڈ: مہاجرین مخالف گیئرٹ وِلڈرز نے انتخابی مہم شروع کردی

جرمنی میں پناہ کے متلاشی غیر ملکیوں کو کیا حقوق حاصل ہیں؟

دوسری جانب جرمنی میں پناہ گزینوں کو ابتدائی مرحلے میں وکیل کا خود بندوبست کرنا ہوتا ہے یا پھر فلاحی تنظیمیں بھی اس حوالے سے تعاون فراہم کرتی ہیں۔ لہٰذا تارکین وطن عدم معلومات کی وجہ سے پہلی سماعت میں ناکافی شواہد مہیا کر پاتے ہیں اور ان کی درخواست کو اکثر مسترد کر دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد درخواست گزار فیصلے کے خلاف اپیل کا حق استعمال کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ جرمنی میں گزشتہ برس پناہ کی درخواستوں پر سنائے جانے والے فیصلوں کے خلاف اپیل کی شرح چالیس فیصد سے زیادہ رہی تھی۔ جبکہ ہالینڈ میں سن 2017 کے دوران صرف تین ہزار پناہ گزینوں کی جانب سے درخواست مسترد کیے جانے پر اپیل دائر کرائی گئی تھی۔

Niederlande Flüchtlinge in Nijmegen
تصویر: Getty Images/AFP/P. van de Wouw

ڈیٹر تھرینہارڈٹ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ جب ایک پیشہ ور وکیل کی جانب سے سیاسی پناہ کی درخواست جمع کروائی جاتی ہے تو اداروں کے لیے یہ عمل آسان بن جاتا ہے کیونکہ ایک وکیل تمام قانونی پیمانوں کو مد نظر رکھتے ہوئے درخواست تیار کرتا ہے۔

ہالینڈ میں مہاجرت اور سیاسی پناہ کے امور پر کام کرنے والے تمام اداروں کے درمیان ہم آہنگی بھی نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر مہاجرین کے دفاتر، امدادی تنظیمیں، پولیس اور عدلیہ منظم طریقے سے کام کرتی ہیں۔ ایک مثال یہ بھی ہے کہ ہالینڈ میں مقیم 90 فیصد پناہ گزینوں کو شمالی علاقے ’تیر آپل‘ منتقل کیا جاتا ہے جبکہ جرمنی میں مہاجرین ملک کے مختلف علاقوں میں رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ 

اس حوالے سے شونے فیلڈ نے بتایا کہ رفیوجی سینٹر میں اندراج کے فوراﹰ بعد تارک وطن کا طبی معائنہ کیا جاتا ہے اور پھر پناہ گزین پانچ روز تک اطمینان سے رہتے ہیں۔ بعد ازاں ان کی پہلی سماعت کے دوران پناہ گزین کی جانب سے فراہم کی گئی معلومات کی دوبارہ سے جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس عمل کو قانونی اور منصفانہ طریقے سے سرانجام دینے میں آٹھ روز لگتے ہیں۔ تاہم جرمنی میں پناہ گزینوں کی پہلی سماعت سے حتمی نتیجہ سامنے آنے تک ساڑھے چار ماہ درکار ہوتے ہیں۔ واضح رہے ہالینڈ میں پناہ کی ایک تہائی درخواستیں منظور کی گئی ہیں جبکہ جرمنی میں پناہ کی درخواستوں پر مثبت فیصلوں کی شرح تقریباﹰ چھیالیس فیصد ہے۔ 

دونوں ممالک میں سیاسی پناہ کی درخواستوں پر عمل درآمد کے نظام کے موازنہ کے بعد ماہرین سمجھتے ہیں کہ جرمن وفاقی ادارہ برائے مہاجرت و تارکین وطن ہمسایہ ملک ہالینڈ کے اس مؤثر نظام سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

ع آ / ع ا (ڈی پی اے)

افغان مہاجر بچی سے جرمن ٹاپ ماڈل تک