1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پشتون تحفظ موومنٹ کے ارکان پر وانا میں حملہ، تین ہلاک

مدثر شاہ نمائندہ، ڈی ڈبلیو
3 جون 2018

جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا میں پشتون تحفظ موومنٹ کے ورکروں پر حملے کے نتیجے میں تین افراد ہلاک جبکہ 25 کے زخمی ہو گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2ysN3
Pakistan Taliban Attacke in Wana
تصویر: DW/M. Shah

ایک عینی شاہد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ طالبان نے علی وزیر اور اس کے ساتھ دیگر کارکنوں پر 40 منٹ تک شدید فائرنگ کی۔ تاہم اس حملے میں پی ٹی ایم کے اہم رہنماء علی وزیر محفوط رہے۔

واقعہ کے بعد سکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا لیکن حالات کشیدہ ہیں۔

ایک مقامی شخص نوراللہ وزیر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ علی وزیر جب ہفتہ دو جون کو جنوبی وزیرستان پہنچے تو لوگوں نے ان کا پرتپاک استقبال کیا جس پر مقامی طالبان کو اعتراض تھا۔

ذرائع نے بتایا کہ مقامی طالبان نے علی وزیر کو پی ٹی ایم چھوڑنے کا کہا اور دھمکی دی کہ اگر وہ باز نہ آئے تو قبائلی روایات کے مطابق بطور سزا ان کاگھر مسمار کر دیا جائے گا۔ علی وزیر مقامی وقت وقت کے مطابق اتوار کی دوپہر جرگہ کے ذریعے طالبان سے بات کرنے کے لیے جا رہا تھا کہ طالبان نے راستے میں علی وزیر اور پی ٹی ایم کے دیگر ورکروں کو سُرخ ٹوپیاں اتارنے کا کہا۔

علی وزیر بعد ازاں علاقے میں موجود اپنے پٹرول پمپ پر پہنچے تو طالبان نے اندھا دھند فائرنگ کردی جس میں ہلکا اور بھاری اسلحہ استعمال کیا گیا۔ یہ سلسلہ تقریباً 40 منٹ تک جاری رہا۔

ایک عینی شاہد کے مطابق طالبان علی وزیر کو قتل کرنا چاہتے تھے لیکن علی وزیر کے ساتھی بر وقت اسے محفوظ مقام تک لے جانے میں کامیاب رہے۔

اس واقعے میں ایک مقامی صحافی نورعلی وزیر سمیت 25 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ ان میں سے سات کو جنوبی وزیرستان سے ڈیرہ اسماعیل خان منتقل کیا جا رہا ہے جو وانا سے بذریعہ سڑک تقریباً ساڑھے تین گھنٹے کا سفر ہے۔

اطلاعات کے مطابق لڑائی کے بعد وانا میں ہزاروں مقامی افراد جمع ہو گئے اور انہوں نے پی ٹی ایم کے حق میں نعرے بازی کی۔

وانا اور ارد گرد کے علاقوں میں کرفیو نافذ کیا گیا ہے لیکن پھر بھی نوجوان وانا کی طرف جا رہے ہیں۔ ایک مقامی شخص کے مطابق طالبان وانا میں قائم اپنا دفتر چھوڑ گئے ہیں۔

Pakistan Taliban Attacke in Wana
اس واقعے میں ایک مقامی صحافی نورعلی وزیر سمیت 25 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔تصویر: DW/M. Shah

ڈی ڈبلیو نے مقامی پولیٹیکل انتظامیہ کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا مگر اس پر کوئی رد عمل نہیں دیا گیا۔

طالبان نے علی وزیر کے خاندان کے بارہ افراد کو پہلے بھی قتل کیا تھا جس کے بعد وہ خود ڈی ائی خان منتقل ہوئے اور پھر منظور پشتین کے ساتھ کے ساتھ مل کر پشتون تحفظ مومنٹ نامی تنظیم شروع کی۔

منظور پشتین سے کچھ سوال اور ان کے جواب