1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پشاور ميں منی لانڈرنگ کے خلاف آپريشن، مقامی تاجر نالاں

فریداللہ خان، پشاور
17 ستمبر 2018

’فنانشل ایکشن ٹاسک فورس‘کے تقاضوں کے پیش نظر پاکستان ميں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں غیر قانونی طور پر رقوم کی ترسیل میں ملوث عناصر کے خلاف وسيع تر آپریشن شروع کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/350h3
Peshawar  Razzia Geldwäsche
تصویر: DW/F. Khan

پشاور کے يادگار چوک اور کارخانو مارکیٹ میں قائم کرنسی مارکیٹ سے بیالیس کرنسی ڈیلرز کو گرفتار کر کے ڈھائی ملین کی ملکی اور غیر ملکی کرنسی قبضے میں لی جا چکی ہے جبکہ پچاس دکانوں کو بند بھی کر دیا گيا ہے۔ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو ان ممالک میں شامل کیا ہے جہاں سے ممکنہ طور پر دہشت گردی میں ملوث افراد کی مالی معاونت کے ليے رقوم کی ترسیل ہو رہی ہے۔ اس ٹاسک فورس نے پاکستان کو پندرہ ماہ کی ڈیڈ لائن دے رکھی ہے، جس کے بعد پاکستان کو ’گرے لسٹ‘ سے نکالنے یا پھر بلیک لسٹ ميں ڈالنے کے بارے میں حتمی فیصلہ کیا جائے گا ۔ایف اے ٹی ایف نے ستائیس خامیوں کی نشاندہی کی ہے جس میں پاکستان سے ہنڈی، حوالہ اور دیگر ذرائع سے منی لانڈرنگ کی جاتی ہے۔

پاکستان نے غیر قانونی طریقے سے رقوم کی منتقلی کو روکنے کے ليے ایک نیشنل ایکشن کمیٹی تشکیل دی ہے، جو وفاقی تحقیقاتی ادارے سمیت قانون نافذ کرنے والے دیگر کئی اداروں پر مشتمل ہے۔

پشاور میں کرنسی کے غیر قانونی ڈیلرز کے خلاف آپریشن کے بارے میں ایف آئی اے خیبر پختونخوا کے ڈائریکٹر میر ویس کا کہنا ہے، ’’حوالہ اور ہنڈی کا کاروبار غیر قانونی ہے، جس کے ذریعے نہ صرف بلیک منی کو وائٹ کیا جاتا ہے بلکہ دہشت گردوں کو رقم  منتقل کی جاتی ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس ابتدائی آپریشن کے دوران ڈھائی کروڑ روپے برآمد ہو چکے ہیں، جن میں ڈالرز، ریال و یورو کے علاوہ دیگر غیر ملکی کرنسیاں بھی شامل ہيں۔ مير ويس کے بقول گرفتار افراد میں تین افغان باشندے بھی شامل ہیں جن سے تحقیقات جاری ہیں۔ انہوں نے مزيد بتايا کہ یہ آپریشن صرف پشاور تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کا دائرہ پختونخوا کے دیگر شہروں تک بڑھایا جائے گا تاکہ صوبے سے رقوم کی غیر قانونی ترسیل کو ختم کیا جا سکے۔

Peshawar  Razzia Geldwäsche
تصویر: DW/F. Khan

پشاور کے يادگار چوک میں کرنسی کا کاروبار کرنے والوں کی سو سے زیادہ دکانیں ہیں۔ ایف آئی اے کے مطابق ان میں سے صرف تین اسٹیٹ بينک آف پاکستان کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔ اس کے علاوہ پشاور کے کارخانو مارکیٹ اور کئی دیگر بازاروں میں بھی کرنسی کا کاروبار کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر افغان تاجر کاروبار کے ليے ہنڈی  و حوالہ کے ذریعے رقوم منتقل کرتے ہیں جبکہ بیرون ملک بالخصوص عرب ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی اکثریت بھی حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے ہی رقوم ارسال کرتی ہے۔ تاہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام کا کہنا ہے کہ اس طریقے سے دہشت گردی میں ملوث افراد کو بھی رقم بھیجی جاتی ہے۔

اس بارے میں کرنسی صرافہ ایسوسی ایشن کے صدر نصیر احمد کا کہنا ہے، ’’منی لانڈرنگ کا بہانہ بنا کر سکيورٹی اداروں نے اسٹیٹ بينک کے لائسنس یافتہ کاروباری افراد کو بھی گرفتار کیا ہے،’’یہ لوگ ایک عرصے سے یہاں کاروبار کرتے ہیں اور کسی قسم کی غیر قانونی سرگرمیوں ميں ملوث نہیں‘‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کرنسی کے کاروبار سے بیس ہزار لوگ منسلک ہیں جو چھوٹے پیمانے پر اپنا کاروبار کرتے ہیں۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کے آپریشن کے دوران متعدد مطلوب لوگ فرار ہوئے ہیں، جن کی گرفتاری کے ليے پولیس متحرک ہے ۔ لیکن تاجر برادری اس آپریشن کے خلاف احتجاج کی تیاری کر رہی ہے۔ مرکزی تنظیم تاجران کے صدر ملک مہر الٰہی کا کہنا ہے، ’’منی لانڈرنگ بڑے شہروں سے ہوتی ہے جبکہ پشاور میں چھوٹے درجے کے تاجر کاروبار کے ليے ان کے پاس آتے ہیں۔ ان کا منی لانڈرنگ سے کوئی واسطہ نہیں۔‘‘ مہر الٰہی کا کہنا تھا کہ اگر گرفتار افراد کو رہا نہ کیا گیا اور ان کے کروڑوں روپے واپس نہ کيے گئے، تو احتجاج کے ليے سڑکوں پر نکلنے سے بھی گریز نہیں کيا جائے گا۔‘‘

دوسری جانب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام کا کہنا ہے کہ انہیں ہر حال میں پاکستان کو گرے لسٹ سے باہر لانا ہے اور اس کے ليے رقوم کی غیر قانونی ترسیل کا خاتمہ ممکن بنايا جائے گا۔