1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عامر تہکال پر پولیس تشدد کے خلاف پشاور میں مظاہرے

فریداللہ خان، پشاور
25 جون 2020

پشاور میں شہری پر تشدد اور اس کی نیم عریاں ویڈیو وائرل کرنے پر پولیس کے خلاف شہریوں نے گرمی اور وائرس کے خطرے کے باوجود احتجاج کیا۔ مظاہرین نے واقعے میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف فوری کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔

https://p.dw.com/p/3eKLv
Pakistan Peschawar | Protest gegen Folter durch Polizei
تصویر: DW/F. Khan

خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں واقع صوبائی اسمبلی کی عمارت کے سامنے احتجاج کرنے والوں میں سیاسی، سماجی اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکن اور شہری شامل تھے۔

اس دوران پولیس نے انہیں منتشر کرنے کیلئے لاٹھی چارج کے علاوہ آنسو گیس کے شیل پھینکے۔

پشاور پولیس نے تہکال نامی علاقے سے عامر نامی ایک افغان شہری کو اس وقت گرفتار کیا جب ایک وی‍ڈیو میں اس نے پولیس کے اعلیٰ افسران کو گالیاں دی تھیں۔ ویڈیو کے وائرل ہوتے ہی پولیس نے عامر کو گھر پر چھاپہ مار کر گرفتار کیا اور انہیں پولیس سٹیشن لے جا کر بے پناہ تشدد کیا اور بعد میں ان کے کپڑے اتار کر ویڈیو بنائی جو وائرل کر دی گئی۔ اس میں عامر کو معافی مانگتے دیکھا جا سکتا ہے۔

اس ویڈیو کے بعد سینئر پولیس افیسر ظہور بابر افریدی نے واقعے میں ملوث تین اہلکاروں کو معطل کیا تاہم انسپکٹر جنرل پولیس ثنا اللہ عباسی نے اسی روز ایس ایس پی کو بھی ان کے عہدے سے ہٹانے کا اعلامیہ جاری کرتے ہوئے پولیس افسران پر مشتمل انکوائری کمیٹی تشکیل دی۔

پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کے علاوہ آنسو گیس کے شیل پھینکےتصویر: DW/F. Khan

اس دوران وزیر اعلیٰ کے مشیر اجمل وزیر کا کہنا تھا ''حکومت نے شہری پر تشدد کے واقعے کی ہائی کورٹ کے جج کی سربراہی میں جوڈیشل انکوائری کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک ماہ کے اندر یہ رپورٹ پبلک کردی جائے گی۔ انکا کہنا تھا کہ انکوائری میں تمام گواہان کے بیانات ریکارڈ ہوں گے۔ متاثرہ شہری کو مکمل انصاف فراہم کریں گے۔‘‘

اجمل وزیر نے تہکال میں متاثرہ خاندان کے افراد سے ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات میں عامر کے بھائی کا کہنا تھا کہ پولیس چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے گھروں میں گھسی اور کئی بے گناہ افراد پر بھی تشدد کیا۔ عامر کے بھائی کے مطابق جن پر تشدد کیا گیا وہ ہسپتال میں ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پولیس تشدد اور نیم عریاں ویڈیو وائرل ہونے کے بعد عامر (اصل نام ردیع اللہ) دو بار خودکشی کی کوشیش کر چکا ہے۔ عامر کے بھائی نے بتایا کہ ان کے بھائی پر کوئی کیس بھی نہیں تھا لیکن مبینہ طور پر نشے دے کر ویڈیو ریکارڈ کروائی گئی اور پھر وائرل کر دیا گیا۔

ادھر یہ بھی اطلاعات ہیں کہ عامر نے افغان قونصیلٹ سے سیاسی پناہ لینے کی درخواست کی ہے جبکہ پولیس کے سربراہ ثنا اللہ عباسی جمعرات کے روز پشاور میں مقیم افغان کونسل جنرل سے ملاقات کی اور انہیں واقعے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرنے اور متاثرہ خاندان کو انصاف فراہم کرنے کا یقین دلایا ہے ۔

Pakistan Peschawar | Protest gegen Folter durch Polizei
سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئےتصویر: DW/F. Khan

ڈی ڈبلیو نے پشاور ہائی کورٹ کے معروف قانون دان نور عالم خان سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا، ''پولیس نے عامر کے کیس میں قانون کے مطابق دفعات درج نہیں کیے جسکا صاف مطلب ہے کہ وہ اپنےساتھیوں کو بچانا چاہتے ہیں۔ اس ایف آئی آر میں اختیارات کا ناجائز استعمال کی دفعہ شامل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ واقعہ پولیس سٹیشن کے اندر ہوا ہے اس لیے عامر پولیس کی کسٹڈی میں تھا۔ پولیس ایکٹ کے مطابق کسٹڈی میں تشدد کرنا جرم ہے جس کی سزا پانچ سال قید ہے اور یہ سیکشن ناقابل ضمانت ہے۔ تشدد ثابت کرنے کیلئے عامر کا میڈیکل ٹیسٹ کروانا بھی ضروری ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ غیر اخلاقی ویڈیو بنانا اور شئیر کرنا بھی قانون کے مطابق ایک جرم ہے جو ایف ائی ار میں درج نہیں۔ نور عالم خان کے مطابق موجودہ ایف آئی آر ناکافی ہے اور پولیس کو بچانے کیلئے کمزور دفعات کا سہار لیا گیا ہے۔