پاکستانی قبائلی علاقے: فضائی حملوں میں اکیس شدت پسند ہلاک
22 اکتوبر 2015حکام کے مطابق یہ فضائی کارروائیاں خیبر ایجنسی میں راجگل اور تیرہ کے علاقوں میں کی گئیں۔ ان علاقوں میں طالبان اور دیگر شدت پسند جنگجوؤں نے ٹھکانے قائم کر رکھے ہیں۔
جمعرات بائیس اکتوبر کو جاری کردہ ایک فوجی بیان کے مطابق، ’’گزشتہ شب 21 دہشت گردوں کو تیرہ اور راجگل کے علاقوں میں فضائی حملوں میں ہلاک کر دیا گیا۔‘‘
یہ حملے گزشتہ برس سے القاعدہ اور طالبان کے خاتمے کے لیے شمالی وزیرستان میں جاری بڑے فوجی آپریشن کی ایک کڑی ہیں، جو پاکستان نے اپنے قبائلی علاقوں سے عسکریت پسندوں کے خاتمے کے عزم کے ساتھ شروع کیا تھا۔ شمالی وزیرستان پاکستان میں وفاق کے زیرانتظام سات میں سے ایک قبائلی انتظامی علاقہ ہے۔
یہ شورش زدہ علاقے دور افتادہ ہیں اور وہاں صحافیوں کی رسائی بھی ممکن نہیں، اس لیے پاکستانی فوج کی جانب سے کیے جانے والے دعووں کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ جاننا بھی ممکن نہیں کہ ہلاک ہونے والے افراد کی اصل تعداد کیا ہے اور ان کا تعلق کس ملک سے ہے۔
پاکستانی فوج نے اکتوبر سن 2014ء میں خیبر ایجنسی میں آپریشن کا آغاز کیا تھا، جس میں ابتدا میں فضائی حملوں اور بھاری توپ خانے کا استعمال کیا گیا اور بعد میں زمینی فوجی دستے بھی اس علاقے میں بھیج دیے گئے۔
اے ایف پی کے مطابق رواں برس پاکستان میں دہشت گردانہ واقعات میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے، تاہم اس برس بھی دہشت گردی کے چند واقعات میں سکیورٹی فورسز کے متعدد اہلکار اور عام شہری مارے گئے۔ سن 2007ء میں پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان نے اپنی کارروائیوں کا آغاز کیا تھا اور اس کے بعد ملک میں دہشت گردی کے متعدد اور مسلسل واقعات دیکھنے میں آئے، جس میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں کمی کے برعکس پڑوسی ملک افغانستان میں ایسی کارروائیوں میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے اور رواں برس وہاں ریکارڈ تعداد میں عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ گزشتہ برس کے اختتام پر افغانستان میں نیٹو فورسز نے اپنے جنگی مشن کا خاتمہ کیا تھا اور غیر ملکی افواج کی بڑی تعداد کا انخلا عمل میں آیا تھا۔ سکیورٹی کی اسی خراب صورت حال کی وجہ سے امریکا نے افغانستان میں موجود اپنے قریب دس ہزار فوجیوں کے انخلا کے شیڈول کو تبدیل کرتے ہوئے ان کے قیام میں توسیع کر دی ہے۔