1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی آم بھی ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں

تنویر شہزاد، لاہور 9 جولائی 2015

تیزی سے رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیاں پاکستان میں آم کی فصل کو بُری طرح متاثر کرنے کا باعث بن رہی ہیں اور رواں برس پاکستان میں آموں کی پیداوار میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Fvoo
تصویر: DW/T. Shahzad

مینگو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ملتان کے سربراہ ڈاکٹر حمیداللہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حالیہ سیزن میں آم کی فصل کی پیداوار کی تباہی کے حتمی اعداد و شمار تو اگلے مہینے تک دستیاب ہوں گے لیکن ان کے بقول اس سال ملک کی 65 فیصد آم کی فصل پیدا کرنے والے صوبے پنجاب میں فصل کا نقصان 50 فیصد تک ہو سکتا ہے، ان کے بقول بعض علاقے ایسے بھی ہیں کہ جہاں آم کے کاشتکاروں کی ستر فی صد فصل تباہ ہو چکی ہے۔

ڈاکٹر حمیداللہ نے بتایا، ’’آم کی فصل کو پکنے کے لیے فروری اور مارچ کے دنوں میں خاص اور قدرے زیادہ درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس سال ان دنوں میں آم کی پیداوار کے علاقوں میں غیرمتوقع طور پر دھند پڑی، پھر سردی کا موسم غیر روایتی طور پر طویل ہو گیا اور رہی سہی کسر بے موسمی بارشوں نے پوری کر دی، اس طرح آم کے پیڑوں پر پھول نہیں بن سکے اور آموں کی پیداوار بری طرح متاثر ہوئی۔‘‘

ڈاکٹر حمیداللہ نے بتایا کہ آم کی بعض ورائٹیوں نے تو موسموں کی اس تبدیلی اور شدت کو کسی حد تک برداشت کر لیا لیکن چونسہ آم بُری طرح متاثر ہوا ہے۔ ان کے بقول مارکیٹ میں اس آم کی قیمت میں اس سال نمایاں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس سال اب تک 40 ہزار ٹن تک آم عالمی منڈی میں ایکسپورٹ کر چکا ہے۔ ان کے مطابق آموں سے بھرے 200 ٹرک بلوچستان کے راستے روزانہ ایران کی طرف جارہے ہیں۔ اس وجہ سے اور رمضان میں آم کے استعمال میں اضافے کی وجہ سے بھی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ پاکستانی ماہرین موسم کی شدتوں کا بہتر مقابلہ کرنے والی آم کی ورائٹیوں پر کام کر رہے ہیں۔ حال ہی میں آم کی دو نئی اقسام بھی متعارف کروائی گئی ہیں۔

’پاکستان کسان اتحاد‘ کے صدر خالد محمود کھوکھر ملتان میں رہتے ہیں اور آم کے کاشتکار ہیں، ان کا اصرار ہے کہ اس سال تباہی کا شکار ہونے والی فصل 50 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ان کے لیے آم کی فصل کی تباہی حیرت کا باعث نہیں بنی کیونکہ آم کے کاشتکار زیادہ قیمتوں والی کھادیں بھی آم کی بہتر فصل کے لیے استعمال نہیں کر سکے۔ انہوں نے کہا، ’’جس ملک میں مینگو پالیسی تو کیا جہاں ھارٹی کلچر کی کوئی پالیسی نہ ہو، جہاں زراعت کی کوئی قومی پالیسی نہ ہو وہاں آموں کی فکر کس کو ہوگی۔‘‘ ان کے بقول چونسہ آم کی پیٹی اس وقت مارکیٹ میں جس ریٹ پر فروخت ہو رہی ہے وہ پچھلے سال کے نرخوں کے سو فیصد سے بھی زیادہ ہے۔

جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والی پاکستان مینگو گرورز ایسوسی ایشن کی سینیئر رکن اور فارمرز ایسوسی ایٹس کی رہنما رابعہ سلطان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے اپنے باغات میں اس سال آم کی فصل 50 فیصد سے زائد تباہ ہو گئی ہے۔

چونسہ آم کی پاکستانی مارکیٹ میں اس برس قیمت پچھلے سال کے نرخوں کے سو فیصد سے بھی زیادہ ہے
چونسہ آم کی پاکستانی مارکیٹ میں اس برس قیمت پچھلے سال کے نرخوں کے سو فیصد سے بھی زیادہ ہےتصویر: DW/T. Shahzad

ان کے بقول حکومت کو موسمیاتی تبدیلیوں کا چیلنج قبول کر کے آگے آنا چاہیے۔ اپنے ریسرچ ایڈ ڈیویلپمنٹ کے شعبوں کو بہتر بنانا چاہیے، کسانوں کے لیے آگاہی مہم چلانی چاہیے اور سب سے بڑھ کر موسموں کے حوالے سے پیشگی اطلاعات کے نظام کو بھی بہتر بنایا جانا چاہیے۔ ان کے بقول موسمیاتی تبدیلیاں زرعی شعبے خاص طور پر ہارٹیکلچر سیکٹر کے لیے تو بہت نقصان کا باعث بن رہی ہیں، کاشتکاروں نے اس سال پہلے چاول کی فصل میں بھاری نقصان اٹھایا تھا، اب آم کی فصل کی تباہی کا سامنا ہے۔

پنجاب میں محکمہ زراعت کے ڈائریکٹر جنرل (توسیع) ڈاکٹر محمد انجم کہتے ہیں کہ آم کی پیداوار میں اس سال کمی کے باوجود توقع ہے کہ آموں کی برآمدات کا ٹارگٹ پورا کر لیا جائے گا۔

یاد رہے پاکستان میں آم کی کل پیداوار پچھلے چند برسوں میں 15 سے 20 لاکھ ٹن کے درمیان رہی ہے۔ پاکستان ہر سال ایک لاکھ ٹن آم عالمی منڈی میں ایکسپورٹ کرتا ہے۔ پاکستانی آموں کے سب سے بڑے خریدار مشرق وسطی کے ممالک ہیں جہاں آم کی برآمدات کا 65 فیصد حصہ بھیجا جاتا ہے۔ دوسرے نمبر پر برطانیہ ہے جہاں آم کی کل برآمدات کا 15 فیصد جاتا ہے۔ پاکستانی آموں کی بہت قلیل مقدار یورپ، آسٹریلیا اور امریکہ بھی جا رہی ہے۔

آموں کے ایک ایکسپورٹرسعادت اعجاز قریشی بتاتے ہیں کہ پاکستانی آموں کی برآمدات میں پچھلے کئی سالوں سے کوئی اضافہ دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ ان کے بقول یورپی ممالک نے گڈ ایگریکلچر پریکٹسز پر زور دیتے ہوئے اپنے ہاں آموں کی درآمدات کے بلند میعارات متعارف کروا دیے ہیں اور پاکستانی برآمدکنندگان کے لیے موجودہ عالمی قیمتوں پر ان میعارات پر پورا اترنا بہت مشکل ہو رہا ہے۔ انہوں نے گلہ کیا کہ پاکستانی حکومت آموں کی برآمدات کے فروغ کے لیے مناسب کام نہیں کر رہی۔

یاد رہے پاکستان میں آموں کی برآمدات کو بڑھانے کے لیے عالمی برادری بھی آموں کے کاشتکاروں کی مدد کر رہی ہے۔ پاکستان میں عالمی ادارہ خوراک و زراعت کے مشیر محمد اقبال نے بتایا کہ دنیا بھر میں زرعی شعبے کو موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے بچانے کے لیے جہاں ماحولیاتی تبدیلیوں کا گہرا مشاہدہ کیا جا رہا ہے وہاں اس کے مقابلے کے لیے حفاظتی اقدامات بھی اختیار کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی سینیٹر مشاہداللہ کی سربراہی میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی وزارت قائم کر دی گئی ہے۔ حال ہی میں آیف اے او کے حکام نے ان سے ملاقات کرکے اس موضوع پر تبادلہ خیال کیا ہے۔