1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: ہیروئن کے استعمال اور تجارت میں اضافہ

امتیاز احمد21 دسمبر 2013

تقریباﹰ دس لاکھ پاکستانی ہیروئین کا استعمال کرتے ہیں۔ انجیکشن کے ذریعے منشیات لینے والے تقریباﹰ تیس فیصد افراد ایچ آئی وی کے شکار ہیں۔ ہیروئن کے لیے پاکستان ایک ٹرانزٹ حب تو ہے ہی لیکن اب یہ خود بھی صارف بن چکا ہے۔

https://p.dw.com/p/1AeUp
تصویر: Banaras Khan/AFP/Getty Images

ریلوے لائنوں کے قریب کوڑا کرکٹ بکھرا پڑا ہے۔ بستے پہنے ہوئے کئی چھوٹے بچے اسکول کی طرف جا رہے ہیں۔ سڑک کی ایک طرف دو ٹرک کھڑے ہوئے ہیں، جن کی اوڑھ میں بیٹھے چند نوجوان سر عام ہیروئن کا نشہ کر رہے ہیں۔ اس طرح کے مناظر کراچی سمیت پاکستان کے متعدد شہروں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ پاکستان میں نہ صرف منشیات کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ اس سے ایڈز کے خلاف کی جانے والی کوششوں کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔

شہزاد احمد بیس ملین آبادی والے شہر کراچی کے اُن ہزاروں نوجوانوں میں سے ایک ہیں، جو سستی افغان ہیروئن کے عادی ہو چکے ہیں۔ بار بار انجیکشن لگانے کی وجہ سے شہزاد احمد کا دائیاں بازوں سوجا ہوا ہے۔ وہ کہتا ہے، ’’کراچی میں آپ کو ہر وہ ڈرگ مل سکتی ہے، جو آپ خریدنا چاہتے ہیں۔‘‘

شہزاد احمد بھی کئی دیگر نوجوانوں کی طرح موسیٰ کالونی کی پرانی ریلوے لائنوں کے قریب ٹھوکریں کھا رہا ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے، جہاں آپ کو کوڑے کرکٹ سمیت منشیات خریدنے والے بھی مل جائیں گئے اور بیچنے والے بھی۔ اندازوں کے مطابق تقریباﹰ دس لاکھ پاکستانی ہیروئن کا استعمال کرتے ہیں اور ان میں سے تقریباﹰ پچاس فیصد یہ انجیکشن کے ذریعے لیتے ہیں۔

Drogenabhängige in Pakistan - Mobile Hilfe für Drogenabgängige
موبائل گاڑی کے ذریعے نئی سرنجیں بھی تقسیم کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ کم از کم ایڈز یا کسی دوسری خطرناک بیماری میں مبتلا نہ ہوںتصویر: Rizwan Tabassum/AFP/Getty Images

رواں برس پاکستان کے ہمسایہ ملک افغانستان میں منشیات کی ریکارڈ حد تک پانچ ہزار پانچ سو ٹن پیداوار ہوئی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس کا اثر پاکستان پر بھی پڑے گا اور منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں مزید اضافہ ممکن ہے۔

منشیات کی لت کے نقصانات سے محمد عمران اچھی طرح واقف ہے۔ وہ ماضی میں جسم فروش بھی رہ چکا ہے اور باقاعدگی سے ہیروئن بھی استعمال کرتا رہا ہے لیکن اب ایک غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔ عمران کہتا ہے، ’’میں اس ماحول سے وابستہ رہ چکا ہوں اور ان لوگوں کے مسائل اور جذبات سے اچھی طرح واقف ہوں۔‘‘ وہ مزید کہتا ہے، ’’ہم ایک موبائل گاڑی کے ذریعے نئی سرنجیں بھی تقسیم کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ کم از کم ایڈز یا کسی دوسری خطرناک بیماری میں مبتلا نہ ہوں۔‘‘ عمران تقریباﹰ بیس برس تک سیکس ورکر کے طور پر کام کرتا رہا لیکن خوش قسمتی سے وہ ایڈز میں مبتلا نہیں ہوا۔

لیکن طارق عباس اتنا خوش قسمت نہیں تھا۔ وہ ایڈز کا شکار ہو چکا ہے، اس وقت بے گھر ہے اور کراچی کی گلیاں اس کا مسکن ہیں۔ طارق عباس کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’جب بھی نوجوان یا بچے میرے پاس آتے ہیں، میں انہیں کہتا ہوں میری طرف دیکھو، اب کوئی بھی میری دیکھ بھال نہیں کرتا۔ وہ لوگ جو مجھے اچھا سمجھتے تھے، ایڈز کی وجہ سے وہ بھی میرا ساتھ چھوڑ گئے ہیں۔‘‘

طارق عباس اپنے مسائل کا ذمہ دار ہیروئن کو سمجھتا ہے لیکن وہ اس معاملے میں اکیلا نہیں ہے۔ پاکستان میں انجیکشن کے ذریعے منشیات لینے والے تقریباﹰ تیس فیصد افراد ایچ آئی وی کے شکار ہیں۔ یہ کئی دیگر ملکوں کی نسبت بہت ہی زیادہ شرح ہے اور پاکستان میں سن 2005ء کے بعد اس میں گیارہ فیصد اضافہ ہوا ہے۔

منشیات کی تجارت

دنیا میں 90 فیصد ہیروئن کی پیداوار افغانستان میں ہوتی ہے اور اس کی تقریباﹰ پچاس فیصد اسمگلنگ پاکستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے کی جاتی ہے۔ منشیات کنیٹنرز اور ٹرکوں میں چھپا کر کراچی تک لائی جاتی ہے اور یہاں کی بندر گاہ کو استعمال کرتے ہوئے دیگر ملکوں تک بھیجی جاتی ہے۔ لیکن یہ منشیات صرف دوسرے ملکوں تک ہی نہیں جاتی بلکہ راستے میں بھی اپنے گاہک ڈھونڈ لیتی ہے۔

پاکستان میں اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم (یو این او ڈی سی) کے سربراہ سیزرگوئڈز کہتے ہیں، ’’پاکستان ایک ٹرانزٹ حب ہے لیکن خود بھی صارف بن چکا ہے۔ اسمگلرز کے لیے فی الحال پاکستان کوئی منافع بخش مارکیٹ نہیں ہے لیکن وہ مقامی مارکیٹ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

تجزیہ کاروں کے مطابق حالیہ چند برسوں میں کراچی کی بندر گاہ ہیروئن کی درآمد اور برآمد دونوں ہی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ افغان ہیروئن دیگر ایشیائی اور یورپی ممالک کے لیے برآمد کی جاتی ہے جبکہ جنوبی امریکی کوکین درآمد کی جاتی ہے۔

افواہیں ہیں کہ پاکستانی ڈیلرز اور لاطینی امریکی کارٹیلز اتحاد کر چکے ہیں۔ پاکستانی وزارت داخلہ میں منشیات یونٹ کے سربراہ اکبر خان ہوتی کا کہنا ہے، ’’ ان کی کوئی سرحدیں نہیں ہیں، کوئی دین نہیں ہے اور کوئی قوم نہیں ہے۔ یہ صرف اور صرف پیسے کا معاملہ ہے اور زیادہ پیسے کے لیے یہ اتحاد کر چکے ہیں۔‘‘

نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق کراچی کی بندرگاہ پر روزانہ تقریباﹰ تین ہزار کنٹینرز آتے ہیں جبکہ ان کو چیک کرنے کے لیے صرف ایک سراغ رساں کتا ہے۔ ایسے میں بہت ہی مشکل ہے کہ ہیروئن کی اسمگلنگ کو روکا جا سکے۔

ایک گرام ہیروئن کی قیمت تقریباﹰ عام شہری کی ماہانہ تنخوا کے برابر ہے لیکن اس کے باوجود اسے استعمال کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ ہوتی کہتے ہیں کہ رواں برس ایک ٹن سے زائد ہیروئن کراچی بندرگاہ سے پکڑی جا چکی ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق امیر نوجوان طبقے میں ہیروئن فیشن کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے بعد واپس لوٹنے والے حسین کا کہنا تھا، ’’ کوکین کا استعمال یقینی طور پر فیشن کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ نوجوان طبقہ اپنے مسائل سے فرار کے لیے اسے استعمال کرتا ہے۔‘‘