1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کے نئے آرمی چیف کو کن چیلنجز کا سامنا ہوگا؟

29 نومبر 2022

منگل کے روز راولپنڈی میں ہونے والی ایک پروقار تقریب میں جنرل سید عاصم منیر نے پاک فوج کے سترہویں آرمی چیف کے طور پر فوج کی کمان سنبھالی۔ ان سے وابستہ توقعات اور ان کو لاحق چیلنجز کا ایک جائزہ۔

https://p.dw.com/p/4KFVQ
Pakistan | General Syed Asim Muni
تصویر: W.K. Yousufzai/AP/picture alliance

پاکستان میں منگل کے روز فوج کے نئے آرمیچیف نے ایک ایسے وقت میں بری فوج کے سپہ سالار کا طاقتور عہدہ سنبھالا ہے جب ملک میں اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان کی طرف سے تنقید کا سامنا ہے، نئے انتخابات کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے، اقتصادی حالات ابتر ہیں ، دہشت گردی کے خطرات پھر سے سر اٹھاتے نظر آ رہے ہیں اور آرمی کے امیج کو بہتر بنانے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔

منگل کے روز راولپنڈی میں ہونے والی ایک پروقار تقریب میں جنرل سید عاصم منیر نے پاک فوج کے سترہویں آرمی چیف کے طور پر فوج کی کمان سنبھالی۔ یاد رہے ان سے پہلے جنرل قمر باجوہ چھ سال تک آرمی چیف رہنے کے بعد اس عہدے سے ریٹائر ہو گئے ہیں۔

پاکستان میں کئی سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ فوج کو حقیقی معنوں میں سیاسی معاملات سے دور رکھنا اور پاکستان کو درپیش دفاعی خطرات کی طرف توجہ مرکوز کرنا نئے آرمی چیف کے لیے بڑے چیلنجز ہوں گے۔

پاکستان کے ممتاز تجزیہ نگار پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ نئے آرمی چیف کو نہ صرف اندرونی سطح پربلکہ بیرونی طور پر بھی کئی چیلنجز کا سامنا ہوگا۔ ان کے مطابق افغانستان اور بھارت  کے ساتھ  بڑھتی ہوئی کشیدگی کے ساتھ ساتھ ملک میں ہونے والیدہشت گردانہ کارروائیاں ان کے لیے ایک بڑے چیلنج کے طور پر سامنے آئیں گی۔ اسی طرح پاکستان میں آرمی کے امیج کی بحالی بھی ان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا جبکہ ملکی معیشت میں بہتری لانے اور سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کے لیے بھی ان کا ایک  ''ان ڈائریکٹ‘‘ رول ہوگا۔ اگر ملکی معیشت بہتر نہ ہو سکی تو اس کے اثرات ملک کے دفاعی بجٹ پر بھی رونما ہوں گے۔

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر حسن عسکری کا کہنا تھا کہ ہر سیاسی ایشو پر آئی ایس پی آر کا ردعمل دینا ضروری نہیں۔  آئی ایس پی آر کا فوج کی پیشہ وارانہ سرگرمیوں کے بارے میں بات کرنا مناسب ہو گا۔ ''دنیا بھر میں فارن پالیسی، انٹرنل سکیورٹی اور بعض دیگرمتعلقہ امور پر فوج سے مشاورت کی جاتی ہے۔ اس میں کوئی ہرج نہیں۔‘‘

ان کی رائے میں پاکستان میں حکومت اور پی ٹی آئی میں جو محاذ آرائی جاری ہے اور ایف آئی اے اور الیکشن کمیشن سمیت کئی وفاقی  حکومتی ادارے جس طرح عمران خان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اس کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ '' افراد کی پکڑ دھکڑ اور انہیں ہراساں کرنا کبھی بھی ریاست کے حق میں نہیں جاتا بلکہ اس سے امیج مزید خراب ہوتا ہے۔ ‘‘فوج کی سیاست سے لا تعلقی، کیا آسان ہے؟

پاکستان کے ایک قومی روزنامے میں کالم لکھنے والے سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نئے آرمی چیف کی طرف سے فوج کی کمان سنبھالنے سے ایک دن پہلے تحریک طالبان نے جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان کرکے پاکستان کے اندر کارروائیاں کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان کے خیال میں پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں کو روکنا اور انٹرنل سکیورٹی کو یقینی بنانا بھی نئے آرمی چیف کے لیے ایک چیلنج ہوگا۔ ''اسی طرح چین اور پاکستان کے تعلقات کی بحالی میں فوج کی طرف سے چینی کارکنوں اور منصوبوں کی سکیورٹی اور بلوچستان کے حالات بھی نئے آرمی چیف کے چیلنجز میں شامل ہوں گے۔

انسداد دہشت گردی کانفرنس میں مودی کا پاکستان پر بالواسطہ حملہ

ڈاکٹر عاصم کی رائے میں پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کی طرف سے اپنے اہداف کے حصول کے لیے فوج سے مدد مانگنے اور اسے متنازعہ بنانے کی کوششیں بھی نئے آرمی چیف کے لیے چیلنج سے کم نہیں ہوں گی۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاک فوج ایک منظم پروفیشنل ادارہ ہے جہاں اچھے سے اچھے افسران موجود ہیں ان کے مطابق آرمی کے ہیومن ریسورس کا معیار بہتر رکھنے کے لیے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع والی قانون سازی پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔

جنرل باجوہ سے اثاثوں کی تفصیلات طلب کرنے کے بعد اعظم سواتی پھر گرفتار

پاکستان کے ایک سینیئر تجزیہ کاراور ایک بڑے میڈیا گروپ کے ایڈیٹر نوید چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نئے آرمی چیف کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہائبرڈ منصوبے سے پوری طرح جان چھڑانا ہے۔ اس سنگین غلطی کے اعادے سے بچنا اور آرمی کو اس کے آئینی رول تک محدود کرنا اور قانون کی بالا دستی کو یقینی بنانا بھی  ایک بڑا چیلنج ہو گا۔

دفاعی تجزیہ نگار برگیڈئیر(ر) فاروق حمید خان نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مسلح افواج پر عوامی اعتماد کی بحالی بھی نئے سپہ سالار کے لیے بڑا چیلنج ہوگا۔ ان کے خیال میں عمران خان کی حکومت کے بعد حالات میں پیدا ہونے والی تلخیوں کو کم کرنے کی ضرورت  ہے ان کے خیال میں اس عرصے میں میڈیا ورکرز اور سیاسی شخصیات پر جتنے مقدمات قائم کیے گئے ہیں انہیں خیر سگالی کے فروغ کے لیے ختم کر دینا چاہیے۔ ان کے خیال میں فوج کو سیاسی معاملات سے دور رہنے کے وعدے کو عملی اقدامات سے ثابت کرنا ہوگا۔ تاہم کسی سیاسی جماعت کے بیانیے کا ساتھ دینے کی بجائے آئینی رول میں رہتے ہوئے آرمی کو  قدرتی آفات، اور سکیورٹی کے معاملات سمیت ضروری امور میں سویلین حکومت کی مدد کرنی چاہیے۔