1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کی درآمد شدہ گیس سے توقعات اور مشکلات

افسر اعوان30 اپریل 2015

پاکستان اپنی اقتصادی بحالی کے لیے چین کے ساتھ ہونے والے 46 بلین ڈالر مالیت کے معاہدوں کے تحت گیس درآمد کرنے کے لیے نئے ٹرمینلز اور پائپ لائنز بچھانے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1FIRo
تصویر: picture-alliance/dpa

تاہم صنعتی ماہرین کا کہنا ہے کہ بری منصوبہ بندی، قیمتوں کی غیر یقینی صورتحال اور سکیورٹی کے مسائل اس کی راہ کی بڑی رکاوٹیں ہیں۔

پاکستانی حکومت ملک میں توانائی کے بحران سے نمٹنے اور صعنت کے شعبے میں ترقی کے لیے گیس درآمد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت طویل المدتی منصوبے کے طور پر مقامی سطح پر گیس کی پیداوار بڑھانے کا بھی منصوبہ رکھتی ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے ایک جائزے کے مطابق توانائی کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان مقاصد کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ پاکستانی حکومت اس سیکٹر کو مناسب طور پر چلانے کے لیے اقدامات کرے اور اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ وہ بلوچستان میں موجود گیس کے بڑے ذخیروں کو نکالنے کے حوالے سے غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ معاملات میں تسلسل کو یقینی بنائے۔

پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی حکومتی سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ پاکستانی حکومت کے پلاننگ کمیشن کے سابق رکن شاہد ستار کے مطابق، ’’سکیورٹی کی صورتحال کو گیس کی تلاش کے کام پر اثر انداز نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ یہ اور کہیں بھی نہیں ہوتا۔‘‘ شاہد ستار مزید کہتے ہیں، ’’لیکن یہ تاریخ رہی ہے کہ حکومت دستخط شدہ معاہدوں سے پھِر جاتی ہے، جس کی وجہ سے غیر یقینی پیدا ہوتی ہے۔‘‘

پاکستان کے 180 ملین شہری گیس کی شدید کمی کا شکار ہیں۔ گیس ملکی توانائی کی تقریباﹰ آدھی ضروریات پورا کرتی ہے جبکہ ہر پانچ میں سے چار کاروں میں بطور فیول بھی استعمال ہوتی ہے۔

پاکستان اپنے ہمسایہ ملک ایران کے ساتھ اپنی گیس پائپ لائن کو منسلک کر دے گا
پاکستان اپنے ہمسایہ ملک ایران کے ساتھ اپنی گیس پائپ لائن کو منسلک کر دے گاتصویر: Shana

پاکستان میں قدرتی گیس کے قریب 105 ٹریلین کیوبک فٹ ذخائر موجود ہیں۔ امریکی انرجی انفارمیشن کے اندازوں کے مطابق یہ مقدار پاکستان کی موجودہ ضروریات کو اگلے 50 برس تک پورا کرنے کے لیے کافی ہے۔

تاہم پاکستان اس وقت محض چار بلین کیوبک فُٹ گیس روزانہ پیدا کرتا ہے جو اس کی ضروریات کے دو تہائی سے بھی کم ہے۔ اسی باعث گھروں میں اکثر گیس کی کمی رہتی ہے اور سی این جی اسٹیشن بھی بند رہتے ہیں۔

روئٹرز کے جائزے کے مطابق گیس کی دولت سے مالا مال پاکستان سرمایہ کاروں کے لیے زیادہ دلچسپی کا حامل نہیں ہے کیونکہ تیل کو نسبتاﹰ جلد مارکیٹ تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ تاہم پاکستان اپنی توانائی کی فوری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے گیس درآمد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

پاکستان لیکوئیفائیڈ نیچرل گیس LNG کا پہلا ٹرمینل گزشتہ ماہ ہی طے شدہ مدت میں مکمل ہوا ہے اور اس نے گزشتہ ماہ سے گیس کی شپمنٹس وصول کرنا بھی شروع کر دی ہیں۔ پاکستانی حکومت ایسے دو مزید ٹرمینل بنانے کا ارادہ رکھتی ہے جس کے بعد انہیں پائپ لائنز کے ذریعے باہم منسلک کیا جائے گا۔ یہ پائپ لائنز روسی اور چینی سرکاری کمپنیوں کے تعاون کے ساتھ بچھائی جائیں گی۔ اگر ایران پر امریکی اور اقوام متحدہ کی پابندیاں ختم ہوتی ہیں تو پاکستان اپنے اس ہمسایہ ملک کے ساتھ اپنی گیس پائپ لائن کو منسلک کر دے گا۔

روئٹرز کے مطابق نئے تعمیر شدہ گیس ٹرمینل کو مسائل کا سامنا ہے اور گیس کے بڑے ٹینکرز کو مذکورہ ٹرمینل تک پہنچنے کے لیے مزید مشکلات کا سامنا ہو سکتا جس کی وجہ وہاں پانی کی گہرائی کی کمی ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے سے قبل پاکستان قطر گیس کے ساتھ اپنے سمجھوتے کو حتمی شکل نہیں دے سکتا۔ اس کے علاوہ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ چونکہ گیس کی قیمتوں میں ان دنوں کمی ہے اس لیے ایک طویل المدتی معاہدہ کرنا قابل عمل نہیں ہے۔