1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: پبلک ٹرانسپورٹ میں خواتین کے ساتھ جنسی ہراسانی

9 اپریل 2021

پبلک ٹرانسپورٹ میں جنسی ہراسانی کے واقعات کے بارے میں آئے دن سننے کا ملتا ہے۔ میں اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ڈرائیور کے ساتھ خواتین کی نشست رکھنے کا مقصد کیا ہے؟ فاطمہ شیخ کا بلاگ

https://p.dw.com/p/3rlWo
تصویر: privat

گھر میں بیٹھو۔ باہر نکلنے کی ضرورت کیا ہے؟ جب گھر کے مرد کما رہے ہیں تو عورتوں کو گھر سے باہر نکلنے کا شوق کیوں ہوتا ہے؟

خواتین جب پبلک ٹرانسپورٹ میں جنسی ہراسانی کی شکایت کرتی ہیں تو انہیں اس قسم کے جملے سنا کر ان کی عزت افزائی کی جاتی ہے۔ جبکہ ملزم سے اس وقت تک کوئی پوچھ پریت نہیں ہوتی جب تک کوئی بڑا حادثہ نا ہو جائے۔

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بسوں میں سفر کرنے والی خواتین میں طالبات، گھروں میں صفائی کرنے والی عورتیں اور دفاتر میں کام کرنے والی خواتین شامل ہیں۔میرے لیے پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنا کسی اذیت سے کم نہیں ہوتا۔ چاہے وہ بس ہو، چنگچی، رکشہ یا آن لائن رائڈ سروسز۔

چند روز قبل میں آن لائن ٹرانسپورٹ سسٹم کے رکشے میں سفر کر رہی تھی۔ سفر شروع ہوئے چند ہی منٹ ہوئے تھے  کہ ڈرائیور نے سگریٹ سلگا لی۔ اس کے بعد وقتا فوقتا رکشے میں مختلف زاویوں سے لگے ہوئے شیشوں کو وہ مستقل آگے پیچھے کر کے اپنی نظروں سے جنسی ہراساںی کی کوشش کرتا رہا۔ غرض کہ ایک گھنٹے کا سفر اکتاہٹ، پریشانی، کوفت اور ذہنی اذیت میں طے ہوا۔

پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے کی ذہنی اذیت صرف رکشوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ بسوں میں خواتین کو اس سے بھی زیادہ ابتر حالات میں سفر کرنا پڑتا ہے۔ جہاں کنڈکٹر اور ڈرائیور سمیت مرد مسافر حضرات خواتین کو جنسی ہراسانی کا نشانہ بناتے ہیں۔

سردیوں کے موسم میں ایک دن میں دوپہر میں بس میں سفر کر رہی تھی۔ میں ڈرائیورکے سامنے والی نشست پہ بیٹھی تھی اور اتفاق سے کوئی اور خاتون کمپارٹمنٹ میں موجود نہیں تھی۔ اچانک ڈرائیور نے ماسٹربیٹ کرنا شروع کر دیا۔ خوف کے عالم میں میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رہ گیا۔چند منٹ بعد بس میں ایک خاتون سوار ہوئیں اور ڈرائیور اس حرکت سے باز آیا تو میں نے شکر کا سانس لیا ۔

روزانہ بس میں سفر کرنے والی مختلف خواتین سے بات کرنے پر معلوم چلا کہ ڈرائیور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے لیے یہ حربے اکثر و بیشتر آزماتے ہیں۔ جبکہ کنڈکٹر حضرات بھی اس کام میں کسی سے پیچھے نہیں۔ کرایہ وصول کرتے وقت اور بقایہ رقم ادا کرتے وقت وہ بھی خواتین کو چھونے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔

  اکثر و بیشتر کنڈکٹر جان بوجھ کر خواتین کے کمپارٹمنٹ سے ہی گزر کر انہیں چھوتے ہوئے مردوں کے حصے میں جاتے ہیں۔ جبکہ خواتین کا خود کو بچانا تقریبا ناممکن ہو جاتا ہے۔

مردوں کی نشست کے آگے والی سیٹ پہ خواتین بیٹھتی ہیں تو ان کے لیے ایک نئی مصیبت شروع ہو جاتی ہے۔ مرد حضرات سیٹوں کے بیچ میں سے انگلیاں ڈال کر خواتین کو ہراساں کرتے ہیں۔ اور اگر خواتین ایسی نشست پہ بیٹھیں جہاں سے مرد ان کا چہرہ باآسانی دیکھ سکتے ہوں تو سارے راستے گھور کر خواتین کا ایکسرے نکال لیتے ہیں۔

پبلک بس میں ایک سیٹ ڈرائیور کے بالکل قریب ہوتی ہے اور اکثر خواتین اس پہ بیٹھنے سے اجتناب کرتی ہیں۔ لیکن اکثر و بیشتر دن بھر کی تھکی ہاری خواتین اس سیٹ پہ بیٹھتی ہیں تو ڈرائیور حضرات جان بوجھ کر انہیں چھوتے ہیں۔

میں اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ڈرائیور کے ساتھ خواتین کی نشست رکھنے کا مقصد کیا ہے؟

پاکستان میں کام کرنے والی خواتین کو سفر کرنے کے لیے کسی غیر مرد کے سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اور اگر بالفرض اسے کسی موقع پہ مدد چاہیے تو وہ خود پوچھ سکتی ہے۔ لیکن خواتین کی نشست مردوں کے ساتھ رکھنے کی توجیح میری سمجھ سے بالاتر ہے۔

آن لائن رائڈ سروسز میں بھی خواتین کو جنسی ہراساں کرنے کے متعدد واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔ راولپنڈی اسلام آباد جیسے شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کا حال یہ تھا کہ وینز میں خواتین کے لیے تقریبا تین دہائیوں تک صرف دو سیٹیں مختص تھیں۔علاوہ ازیں سفر کے دوران انہیں جنسی ہراسانی کا بھی سامنا تھا۔

دو ہزار چودہ میں ایشیین ڈیویلپمنٹ بینک کی ایک تحقیق کے مطابق کراچی میں کام کرنے والی پچیاسی فیصد خواتین، بیاسی فیصد طالبات اور سڑسٹھ فیصد گھریلو خواتین ایک سال کے دوران جنسی ہراسانی کا نشانہ بنیں۔ملک کے دیگر شہروں کی خواتین کو بھی اسی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

 محققین اس بات پہ متفق ہیں کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں درپیش مسائل کی وجہ سے اکثر خواتین اعلی تعلیم کے مواقع، کام کرنے کی بہتر جگہیں اور دوسری سرگرمیوں میں حصہ لینے سے اجتناب کرتی ہیں۔

پاکستانی خواتین کو ایک ایسے سرکاری ٹرانسپورٹ نظام کی ضرورت ہے، جس میں خواتین جنسی ہراسانی اور ذہنی اذیت سے بچ سکیں۔

DW Urdu Blogerin Fatima Shaikh
فاطمہ شیخ کراچی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔ زیادہ تر سماجی مسائل پر لکھتی ہیں۔