پاکستان میں کرسمس کی خوشیاں
چوبیس دسمبر کی شام دنیا بھر میں کرسمس تقریبات کا آغاز ہو جاتا ہے۔ ہر سال کی طرح رواں برس بھی پاکستان میں بھی کرسمس روایتی انداز میں منائی جا رہی ہے تاہم سکیورٹی کے بھی سخت انتظام کیے گئے ہیں۔
پاکستان کے یہ سانتا کلاز دیگر افراد کو بھی اپنی خوشیوں میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ ایک گھوڑا گاڑی پر سوار یہ افراد پاکستان میں مذہبی رواداری کی بھی علامت ہیں۔
پاکستان میں کرسمس کی تقریبات کا آغاز منگل اور بدھ کی درمیانی رات سے ہی ہو گیا تھا۔ اس موقع پر گرجا گھروں میں خصوصی عبادات اور دعاؤں کا سلسلہ جاری ہے جبکہ کرسمس گیت بھی گائے جا رہے ہیں۔
لاہور میں بھی کرسمس پارٹیوں کا انعقاد ہو رہا ہے، ایک دوسرے کو مبارک باد دینے کے ساتھ ساتھ مسیحی برادری کے ارکان ایک دوسرے کو پھول اور کیک بھی پیش کر رہے ہیں۔
اس سال بھی گھروں، ہوٹلوں، گرجا گھروں اور مشنری تعلیمی اداروں کو کرسمس کے درختوں سے سجایا گیا ہے۔ اس موقع پر کرسمس کا درخت اور اس کی سجاوٹ لازم و ملزوم تصور کیے جاتے ہیں۔
کرسمس کے آغاز سے پہلے ہی مذہبی تسبحیوں اور مذہبی علامتوں والے لاکٹس کی خرید و فروخت کا آغاز بھی ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک دوسرے کو تحائف پیش کرنا بھی روایت بن چکی ہے۔
لاہور کے ایک چرچ میں جاری دعائیہ تقریب کا ایک منظر، جس کو جلتی ہوئی موم بتیاں مزید خوبصورت بنا رہی ہیں۔ پاکستان کی مجموعی آبادی 180 ملین سے زائد ہے اور اس میں سے تقریبا دو فیصد افراد کا تعلق مسیحی برادری سے ہے۔
صدر پاکستان ممنون حسین اور وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے بھی مسیحی برادری کے لیے کرسمس کے موقع پر مبارکباد، نیک خواہشات اور دلی تمناؤں کا اظہار کیا گیا ہے۔
دنیا بھر میں بہت سے لوگ اس مذہبی تہوار کو معافی اور مصالحت کا موقع بھی قرار دیتے ہیں۔
انتہا پسندوں کی طرف سے دہشت گردانہ حملوں کے پیش نظر اس مرتبہ کرسمس سے قبل گرجا گھروں کی حفاظت کے لیے سکیورٹی کے انتظامات انتہائی سخت ہیں۔
خیبر پختونخوا میں مسیحی برادری نے کرسمس سادگی سے منانے کا اعلان کیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے آل سینٹ چرچ میں دعائیہ تقریب کے دوران ہونے والے دہشت گردانہ حملے میں تقریبا سو افراد ہلاک جبکہ ڈیڑھ سو سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔
پشاور کے اس چرچ میں حالیہ دہشت گردی کی کارروائی میں ہلاک ہونے والوں کی تصاویر آویزاں کی گئی ہیں۔ مسیحی برادری آج بھی یہ شکوہ کر رہی ہے کہ ان کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم نہیں کیا گیا اور آج بھی حکومت کی جانب سے فراہم کردہ سکیورٹی پر انہیں تحفظات ہیں۔