پاکستان میں پولیو کی مہم شروع لیکن کئی قبائلی علاقوں میں مؤخر
16 جولائی 2012
حکام کے مطابق اس مہم کے دوران ملک بھر میں تین کروڑ چالیس لاکھ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے لیے ویکسین کے قطرے پلانے کی کوشش کی جائے گی۔ تاہم حکام کے مطابق سیکورٹی خدشات اور طالبان رہنماؤں کی دھمکیوں کے سبب ملک کے قبائلی علاقوں بالخصوص شمالی اور جنوبی وزیرستان میں بڑی تعداد میں بچے پولیو کے بچاؤ کے قطرے پینے سے محروم رہ سکتے ہیں۔
پاکستانی وزیراعظم کی سماجی امور کی مشیر اور ملک میں پولیو کے خاتمے کے لیے فوکل پرسن بیگم شہناز وزیر علی کا کہنا ہے کہ سی آئی اے ایجنٹ ڈاکٹر شکیل آفریدی کیس کی وجہ سے قبائلی علاقوں میں پولیو ٹیموں کو اپنے کام میں مشکلات درپیش ہیں۔
ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں بیگم شہناز وزیر علی نے کہا، ’’لوگ سمجھتے ہیں کہ شکیل آفریدی جیسے ایجنٹ پولیو کی ٹیموں کے ساتھ آ کر ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔ حالانکہ شکیل آفریدی پولیو ویکسینیشن کے لیے نہیں گیا تھا۔ خون لینا اور ڈی این اے ٹیسٹ کرنا اس کا پولیو سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی کہ وہ ایک ویکسین مہیا کرنے والا تھا اور امریکی ایجنٹ تھا اس لیے یہ خطرناک ہے‘‘۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس سال ملک بھر میں اب تک پولیو سے متاثرہ 23 بچوں کا اندراج کیا جا چکا ہے۔ اس سال بھی سب سے زیادہ 11 بچوں کا اندراج وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں یعنی فاٹا میں کیا گیا جہاں خیبر ایجنسی میں 9 بچے پولیو کا شکار ہو چکے ہیں۔
صوبوں کے لحاظ سے بلوچستان میں تین ، سندھ میں 3 ، خیبر پختونخوا میں 4 اور پنجاب میں پولیو سے متاثرہ بچوں کی تعداد 3 ہے۔ بیگم شہناز وزیر علی کا کہنا ہے کہ فاٹا میں حالات کی خرابی کا ذمہ دار جو کوئی بھی ہو اس کا اثر معصوم بچوں کی زندگیوں پر نہیں پڑنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان پولیو کے قطروں کے معاملے پر سیاسی مفاد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
بیگم شہناز وزیر علی کا کہنا ہے کہ بچوں کو موذی مرض سے بچاؤ کے قطرے نہ پلوانا ’غیر اسلامی‘ ہے۔ انہوں نے کہا، ’’آخر کار ان کو اپنے بچوں کو تو محفوظ کرنا چاہیے۔ ہم اس حد تک جانے کے لیے تیار ہیں کہ ہم نے ان کو پیغام بجھوایا ہے کہ اگر آپ اپنے لوگ ہمارے پاس بھیجیں تو ہم آپ کے لوگوں کو ویکسین دینے کے لیے ان کی تربیت کرنے کے لیے اور انہیں مکمل تعاون فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ آپ اپنی تسلی کر لیں کہ آپ کے سارے بچے اس خطرناک بیماری سے محفوظ ہو چکے ہیں۔‘‘
پاکستانی وزیر اعظم کی مشیر برائے سماجی امور کا کہنا ہے کہ ماضی کی حکومت نے پولیو کی نگرانی کا موثر نظام قائم نہیں کر رکھا تھا، اس لیے 2004 ء سے 2007ء تک ایسا لگتا تھا کہ جیسے پولیو کیسز کم ہو گئے ہیں۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں پولیو کا مرض اب بھی نہ صرف موجود ہے بلکہ پھیل بھی رہا ہے۔ حکومتی اور غیر حکومتی سطح پر اس کی روک تھام کے دعوؤں کے باوجود بھی گزشتہ سالوں میں اس بیماری میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
رپورٹ: شکور رحیم ، اسلام آباد
ادارت : عاطف بلوچ