1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹیم میں آنے کے لیے تین سیزن تک کارکردگی لازمی، راشد لطیف

طارق سعید، کراچی3 مارچ 2014

پاکستان کرکٹ کے نئے چیف سلیکٹر راشدلطیف کا کہنا ہے کہ آئندہ کسی کو قومی ٹیم میں آنے کے لیے کم ازکم تین سیزن کارکردگی دکھانا ضرور ہوگا، خاص طور پر کسی بیٹسمین کی شمولیت ایک سیزن کی کارکردگی پر نہیں ہوگی۔

https://p.dw.com/p/1BIZQ
تصویر: DW

راشد لطیف کہتے ہیں کہ کپتان مصباح الحق کے ساتھ ان کی اچھی ہم آہنگی ہے اور سلیکشن میں کپتان اور کوچ کی رائے لی جائے گی تاہم انہی کھلاڑیوں کو فوقیت دی جائے گی جو ملک کے لیے بہتر ہوں گے۔ راشد کے بقول سب کو اگلے چھ ماہ میں پاکستان کرکٹ کے سسٹم میں تبدیلی نظر آئے گی ۔

کراچی میں ڈی ڈبلیو کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں راشد لطیف نے کہا کہ ڈومیسٹک کرکٹ سے انٹرنیشل معیار کے کھلاڑی ڈھونڈنا پڑیں گے مگر ڈومیسٹک کرکٹ کا اپنا معیار ماضی کے مقابلے میں گرا ہے۔ راشد لطیف کے بقول، ’’وکٹوں کا معیار بھی گرا ہے۔ ہمارے پاس اس وقت صرف اسٹروک پلیئرز ہیں، بھارت کی طرح ہمیں بھی ایسی وکٹیں تیار کرنا ہوں گی جہاں بیٹسمین پورا دن بیٹنگ کرسکیں۔‘‘

راشد کے بقول پورٹ قاسم کرکٹ ٹیم کی دو سالہ کوچنگ کی وجہ سے ڈومیسٹک کرکٹ کے تمام سرکردہ کھلاڑی ان کی نظر میں ہیں جس کا انہیں فائدہ ہے۔ راشد کے مطابق کوشش ہوگی کہ سلیکشن کمیٹی میں بھی ایسے لوگ آئیں جو جوان اور توانا ہوں اور ڈومیسٹک کرکٹ سے وابستہ رہے ہوں۔

راشد کے بقول پورٹ قاسم کرکٹ ٹیم کی دو سالہ کوچنگ کی وجہ سے ڈومیسٹک کرکٹ کے تمام سرکردہ کھلاڑی ان کی نظر میں ہیں جس کا انہیں فائدہ ہے
راشد کے بقول پورٹ قاسم کرکٹ ٹیم کی دو سالہ کوچنگ کی وجہ سے ڈومیسٹک کرکٹ کے تمام سرکردہ کھلاڑی ان کی نظر میں ہیں جس کا انہیں فائدہ ہےتصویر: DW

سابق پاکستانی کپتان راشد لطیف کہتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ کو پٹری پر واپس لانے کے لیے بورڈ حکام کا مثبت رویہ دیکھ کرانہوں نے پی سی بی میں کام کرنے کی پیشکش قبول کی۔

1994ء میں سب سے پہلے میچ فکسنگ کا بھانڈا پھوڑنے کے بعد سے راشد لطیف پاکستانی کرکٹ میں اینٹی اسٹیبلیشمنٹ سمجھے جاتے ہیں۔ انہیں نجم سیٹھی سمیت بورڈز کے کئی اعلیٰ عہدیداروں سے قانونی جنگیں بھی لڑنا پڑیں۔

راشد نے بتایا کہ قانونی جنگ لڑنا ان کا حق تھا: ’’ میں نے کرکٹ کی بہتری کے لیے ہر لڑائی لڑی۔ ڈی جی بننے پر اپنے محسن جاوید میانداد تک کو عدالت لےگیا۔ اب مجھے پاکستان کرکٹ بورڈ کے اندر رہ کر کھیل کے معاملات کی اصلاح کا موقع مل رہا ہے۔ ہم باہر بیٹھ کر بولتے تھے کہ پاکستان سپر لیگ ہونی چاہیے اگر بورڈ کے اندر رہ کر آواز اٹھائیں گے تو ہو سکتا سپر لیگ ہو جائے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ بڑا کارنامہ ہوگا۔ بورڈ کے اندر رہ کر کرکٹرز کے مسائل حل کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ کرکٹ جنون کا نام ہے اور اس کے لیے دن رات کام کروں گا۔ میں طویل المدتی منصوبوں پر یقین نہیں رکھتا چھ ماہ میں تبدیلی سب کو نظر آئے گی۔‘‘

راشد لطیف نے پاکستان کرکٹ بورڈ کی انتظامیہ میں نوے کے عشرے کے کرکٹرز کی شمولیت کو اچھا قدم قرار دیا۔ راشد کے بقول نوے کا عشرہ پاکستان کرکٹ کا سب سے سنہری دور تھا، ’’اسی دور میں ہم نے عالمی کپ جیتا۔ اس وقت کے تمام پندرہ کھلاڑی ورلڈ کلاس تھے اسی زمانے کے کرکٹرز کی خدمات حاصل کرنا ملکی کرکٹ کے لیے اچھا شگون ہے۔‘‘

راشد لطیف نے انکشاف کیا کہ انہیں قائل کرنے میں چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی کے علاوہ معین خان، باسط علی اور محمد اکرم کا ہاتھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے حکام کا مثبت رویہ دیکھ کر ہی پی سی بی جوائن کرنے کا فیصلہ کیا۔ راشد لطیف نے بتایا کہ وہ ایسے کھلاڑی پاکستان کرکٹ ٹیم کو دینا چاہتے ہیں جو اگلے پانچ برس تک ملک کی خدمت کر سکیں۔