1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹک ٹاک کے سربراہ نے استعفی دے دیا

27 اگست 2020

دنیا کی مقبول سوشل میڈیا ویڈیو ایپ ٹک ٹاک کے امریکی سربراہ کیوین مائر مستعفی ہو گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3haaD
Tik Tok
تصویر: picture-alliance/F. May

امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ کمپنی امریکی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ ٹک ٹاک چینی کمپنی بائٹ ڈانس کی ملکیت ہے۔  

ٹرمپ حکومت کا کمپنی پر دباؤ ہے کہ وہ اس کی ملکیت کسی امریکی کمپنی کو بیچ دے۔ امریکی سافٹ ویئر کمپنی مائیکروسافٹ ٹک ٹاک خریدنے کے لیے کافی عرصے سے کوشش کر رہی ہے۔

صدر ٹرمپ نے چند ہفتے پہلے ہی ٹک ٹاک کے ساتھ تمام معاہدے ختم کرنے اور ستمبر کے وسط سے اس پر پابندی لگانے کا اعلان کیا تھا۔

استعفیٰ کیوں دیا؟

اپنے استعفے میں کیوین مائر نے کہا انہوں نے کمپنی میں متوقع تبدیلیوں کے بارے میں کافی سوچ بچار کے بعد عہدے سے الگ ہونے کا مشکل فیصلہ کیا۔

کیوین مائر ماضی میں ہالی ووڈ کی بڑی انٹرٹینمنٹ کمپنی ڈزنی میں سینئر عہدے پر کام کر چکے ہیں۔ جس وقت انہوں نے ٹک ٹاک کے چیف ایگزیکٹو کی ذمہ داری سنبھالی، اُس وقت اس کمپنی کے حوالے سے صدر ٹرمپ کی ناپسندیدگی کا دور دور تک امکان نہیں تھا۔

USA TikTok-CEO Kevin Mayer zurückgetreten
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Dovarganes

کیوین مائر خود امریکی شہری ہیں۔ لیکن واشنگٹن کی طرف سے اس ایپ کو متنازعہ قرار دیے جانے کے بعد کیوین مائر کا دو ٹوک موقف رہا ہے کہ چین کی حکومت امریکی صارفین کی معلومات جاسوسی کے لیے نہیں استعمال کر سکتی کیونکہ امریکا میں یہ ایپ استعمال کرنے والوں کا ڈیٹا ملک کے اندر ہی رہتا ہے۔

ٹک ٹاک ٹرمپ حکومت کے نشانے پر کیوں ہے؟

صدر ٹرمپ نے اگست کے اوائل میں چینی موبائل ایپس ٹک ٹاک اور وی چیٹ کی مالک کمپنیوں کے ساتھ لین دین پر پابندی کا حکم دیا تھا۔

امریکی صدر کے مطابق، ”امریکا میں چین کی کمپنیوں کی تیار کردہ موبائل ایپس پھیلنے سے امریکا کی قومی سلامتی، خارجہ پالیسی اور معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔‘‘

USA | US-Präsident Donald Trump will App Tiktok verbieten
تصویر: picture-alliance/AP Images/Star Max/D. V. Tine

 ٹرمپ حکومت کا خیال ہے کہ ٹک ٹاک اپنے صارفین کے بارے میں تمام اطلاعات بشمول انٹرنیٹ اور دیگر نیٹ ورک پر ان کی سرگرمیوں مثلاً لوکیشن، ڈیٹا اور براؤزنگ کی تفصیلات خود بخود حاصل کر لیتی ہے۔

واشنگٹن کے مطابق انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں چین کا بڑھتا ہوا اثرو رسوخ  روکنے کے لیے اس طرح کے اقدامات ناگزیر ہیں۔