1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹک ٹاک سمیت چینی ایپس پر پابندی عائد کر سکتے ہیں، امریکا

7 جولائی 2020

امریکی وزیر خارجہ کے مطابق وہ ٹک ٹاک سمیت چینی سوشل میڈیا ایپس پر پابندی لگانے پر غور کر رہے ہیں۔ یہ اعلان ایک ایسے وقت پر کیا گیا ہے، جب چین سوشل میڈیا ایپس کی عالمی مارکیٹ میں قدم جماتا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/3euPL
Screenshots Klinikum Dortmund benutzt TikTok App

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے دنیا کی مشہور ایپ ٹک ٹاک پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کمپنی صارفین کا ڈیٹا حکومت کے ساتھ شیئر کر رہی ہے جب کہ ٹک ٹاک انتظامیہ نے اس الزام کی سختی سے تردید کی ہے۔ قبل ازیں امریکی قانون سازوں نے ملکی صارفین کے ڈیٹا کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'ٹک ٹاک جیسی کمپنیوں کو قانون کے مطابق ملکی انٹیلی جنس اداروں کے ساتھ تعاون کرنے کا پابند بنایا جاتا ہے۔‘

DW Akademie Praxiswoche Formatentwicklung
تصویر: DW/E. Senftleben

امریکی وزیر خارجہ کا فوکس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ ملکی صارفین کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ چین کی شارٹ ویڈیو کمپنی بائٹ ڈانس کا استعمال کرتے ہوئے بھی محتاط رہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ لوگوں کو ٹک ٹاک ڈاؤن لوڈ کرنے کا مشورہ دیں گے تو ان کا کہنا تھا، '' اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی معلومات چینی کمیونسٹ پارٹی کے ہاتھ لگے تو ایسا ضرور کیجیے۔‘‘

چینی ایپس پر پابندی کتنی مؤثر؟

امریکی وزیر خارجہ کے اس بیان کے بعد ٹک ٹاک انتظامیہ نے نیوز ایجنسی روئٹرز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے کبھی بھی اپنے صارفین کا ڈیٹا کسی حکومتی ادارے کو فراہم نہیں کیا۔

امریکا کی طرف سے یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب دونوں ملکوں کے مابین دو سال سے 'تجارتی جنگ‘ جاری ہے۔ کورونا وائرس، فائیو جی ٹیکنالوجی اور ہانگ کانگ کے حوالے سے بھی دونوں ملکوں میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔

حال ہی میں بھارت نے بھی سرحدی کشیدگی کے بعد ٹک ٹاک سمیت اٹھاون چینی ایپس پر پابندی عائد کر دی تھی۔ نئی دہلی حکومت کا مقصد بھی چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو کم کرنا ہے۔

ا ا / ع س (روئٹرز، ڈی پی اے)