1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی پہنچنے پر مہاجرین کے ساتھ اب کیا ہو گا؟

4 جولائی 2018

ہنگری نے یورپی یونین کی بیرونی سرحد پر ایسے ’ٹرانزٹ زونز‘ قائم کر رکھے ہیں، جہاں سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو بند کر دیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اب جرمنی بھی آسٹریا کی سرحد پر ایسے ہی مراکز قائم کر رہا ہے؟

https://p.dw.com/p/30p5g
Ungarn Transitlager an der Grenze zu Serbien
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kisbenedek

جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین اور باویریا میں اس کی ہم خیال پارٹی کرسچین سوشل یونین نے شدید بحث و مباحثے کے بعد سیاسی پناہ کے درخواست گزاروں سے متعلق ایک نئی پالیسی پر اتفاق کر لیا ہے۔ اسی طرز کی پالیسی اس سے قبل ہنگری میں موجود ہے۔ اس پالیسی کے تحت سیاسی پناہ کے درخواست گزار اب جرمنی میں براہ راست داخل نہیں ہو سکتے۔

'تارکین وطن کا ملک‘ بننے سے بچاؤ، ہنگری مزید کیا کرے گا؟

مہاجرین مخالف ہنگری کو ہنرمند تارکین وطن کی اشد ضرورت

مہاجرین کی آبادکاری سے بچنے کے لیے ہنگری آئین میں ترمیم کا خواہاں

ہنگری نے سیاسی پناہ کے درخواست گزاروں کے لیے لائحہ عمل کچھ یہ اختیار کر رکھا ہے کہ سب سے پہلے تو انہیں سربیا کی سرحد پر نصب خاردار تار والی دیوار کے قریب روکا جاتا ہے، جہاں سے انہیں کنٹینروں سے بنائے ہوئے ’ٹرانزٹ زونز‘ میں لایا جاتا ہے۔

ہنگری ہلسنکی کمیٹی نامی امدادی گروپ کے مطابق سربیا کے ساتھ ملحق سرحدی کراسنگ سے روزانہ کی بنیاد پر صرف ایک تارک وطن کو ہنگری میں داخلے کی اجازت ہوتی ہے۔ ہنگری کی حکومت تاہم ان اعداد و شمار کو رد کرتی ہے۔ ہنگری کے وزیراعظم کے ترجمان ژانوس لازار کے مطابق، ’’یہ ہمارا قصور نہیں ہے کہ صرف کچھ ہی افراد ہنگری کا رخ کرتے ہیں۔‘‘

امدادی اداروں کے مطابق ہنگری کی سرحد پر اب بھی قریب چار ہزار افراد ایسے ہیں، جو ہنگری میں سیاسی پناہ کے منتظر ہیں۔

ہنگری ان ٹرانزٹ زونز کو ’نو مین لینڈ‘ قرار دیتا ہے۔ یہاں سیاسی پناہ کے درخواست گزاروں کو رجسٹر کیا جاتا ہے اور یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ ان میں سے کسی نے یورپی یونین کی کسی اور رکن ریاست میں تو سیاسی پناہ کی درخواست جمع نہیں کرائی۔ اگر کوئی تارک وطن کسی اور ملک میں سیاسی پناہ جمع کر چکا ہوتا ہے، تو اسے ٹرانزٹ زون ہی سے ملک بدر کر دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر کسی تارک وطن کی سیاسی پناہ کی درخواست مضبوط نہ ہو تو بھی اسے ہنگری سے نکال دیا جاتا ہے۔ اس پورے عمل میں چند گھنٹے اور کچھ صورتوں میں پندرہ دن تک لگ سکتے ہیں۔

سرحد پار کرنے کی کوشش ’مہنگی‘ پڑ سکتی ہے

سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہونے پر یا ان تارکین وطن کو سیاسی پناہ کی درخواست جمع کرانے کے لیے نااہل تصور کرنے پر انہیں سربیا واپس بھیج دیا جاتا ہے اور ان کے ہنگری میں داخلے پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔

اصولی طور پر ان افراد کو اپنے خلاف فیصلے کا حق دیا گیا ہے، تاہم امدادی اداروں کے مطابق یہ حق فقط کاغذوں کی حد تک محدود ہے جب کہ عملی طور پر یہ سیاسی پناہ کے درخواست گزاروں سے متعلق فیصلہ اور ان کی ملک بدری اتنی تیز رفتاری سے ہوتی ہے کہ کسی مہاجر کے پاس اپیل کا وقت ہی نہیں ہوتا۔

سیاسی پناہ کی درخواست قبول کرنے پر بھی ان تارکین وطن کو ان ٹرانزٹ زونز میں روک لیا جاتا ہے اور انہیں تاکید کی جاتی ہے کہ وہ ان مراکز سے باہر نہ نکلیں۔ ہنگری میں سیاسی پناہ کی درخواستوں کو نمٹانے کے پورے عمل میں تین سے چھ ماہ درکار ہوتے ہیں اور اس مدت میں کسی مہاجر کو اس ٹرانزٹ مرکز ہی میں رکنا پڑتا ہے۔

جرمنی میں اب یہ بحث ہو رہی ہے کہ اگر برلن حکومت آسٹریا کی سرحد پر ٹرانزٹ زونز قائم کرتی ہے، تو وہ کس طرح ہنگری کے ٹرانزٹ زونز سے مختلف ہوں گے؟

بیرنڈ ریگرٹ / ع ت / ص ح