1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

يہوديوں کی عبادت گاہ پر حملہ، تين مہاجرين کے خلاف کارروائی

26 مئی 2018

سويڈن ميں تين تارکين وطن افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی، جن پر شبہ ہے کہ وہ اس يورپی ملک میں واقع يہوديوں کی ايک عبادت گاہ پر حملے ميں ملوث تھے۔

https://p.dw.com/p/2yMaj
Schweden Abschiebung von Asylsuchenden
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Nilsson

تين مہاجرين کو سويڈن ميں پيٹرول بموں کی مدد سے ايک يہودی عبادت گاہ پر حملے کے الزامات کا سامنا ہے۔ استغاثہ اور ملزمان کے وکلاء نے تصديق کی ہے کہ ملزمان کے خلاف عدالتی کارروائی کی جائے گی اور اس مقدمے کی پہلی سماعت گوتھن برگ ڈسٹرکٹ کی ايک عدالت ميں بارہ جون کو  ہو گی۔ ان ملزمان کی عمريں انيس سے چوبيس برس کے درميان ہيں۔ ان ميں ايک شامی اور دو فلسطينی ہيں۔ ان ملزمان کی شناخت يہودی عبادت گاہ کی نگرانی کے ليے وہاں نصب ويڈيو کيمروں کی مدد سے ممکن ہوئی۔

استغاثہ کا موقف ہے کہ ملزمان نے اپنے نظريات اور عقيدے کی وجہ سے يہ واردات  سرانجام دی جبکہ ملزمان اسے مسترد کرتے ہيں۔ سويڈن ميں يہ واقعہ امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے يروشلم کو اسرائيلی رياست کا دارالحکومت تسليم کيے جانے کے اعلان کے چند ہی روز بعد رونما ہوا۔ سويڈن کے دوسرے سب سے بڑے شہر گوتھن برگ ميں تقريباً ايک درجن افراد نے نو دسمبر کی شام يہودی عبادت پر جلتی ہوئی کئی اشياء بھی پھینکی تھیں۔ اس موقع پر عبادت گاہ ميں قريب بيس نوجوان موجود تھے، جنہوں نے ايک تہہ خانے ميں پناہ لے لی تھی۔ اس حملے سے کوئی جانی يا مالی نقصان نہيں ہوا تھا۔ چھان بين کے ليے پانچ افراد کو حراست ميں ليا گيا، جن ميں سے دو کو بعد ازاں ناکافی شواہد کی بنياد پر رہا کر ديا گيا۔

شامی ملزم کی نمائندگی کرنے والے وکيل ايڈم سيميولسن کے بقول اب تک کی تفتيش کے نتائج سے يہ ثابت نہيں ہوتا کہ ان کا موکل جائے واقعہ پر موجود تھا۔ انہوں نے کہا کہ تمام تر شواہد نگرانی کرنے والے کيمروں کی مدد سے حاصل کيے گئے ہيں اور ان ميں ايک درجن سے زائد افراد دکھائی دے رہے ہيں، جنہوں نے اپنے چہرے چھپا رکھے ہيں اور يوں ان کی شناخت ممکن نہيں۔ ايڈم سيميولسن کے بقول شامی پناہ گزين ايک عام شہری ہے، جو شام ميں اپنے اہل خانہ کے ليے کام کاج کرتا ہے۔

دوسری جانب استغاثہ کا موقف ہے کہ اگرچہ سی سی ٹی وی ميں مشتبہ ملزمان کے چہرے واضح نہيں تاہم ان کے ٹيلی فون ريکارڈز اور جائے واقعہ پر موجود گواہوں کی مدد بھی رہنمائی حاصل کی گئی ہے۔ ان تمام افراد پر اگر الزامات ثابت ہو گئے، تو انہيں چھ برس قيد اور پھر ملک بدری کا سامنا ہو سکتا ہے۔

ع س / ع ب، نيوز ايجنسياں