1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’يورپی يونين اپنی تاريخ کے سياہ دور میں داخل ہونے والی ہے‘

عاصم سليم28 جون 2016

غير سرکاری تنظيموں کے ايک گروپ نے يورپی يونين کے رکن ممالک کے رہنماؤں پر زور ديا ہے کہ وہ افريقی ملکوں کو اپنے ہاں سے پناہ گزينوں کی يورپ ہجرت روکنے کے ليے مالی مراعات دينے سے متعلق متنازعہ منصوبوں کو مسترد کر ديں۔

https://p.dw.com/p/1JEsO
تصویر: picture alliance/Pacific Press/Donna Bozzi

’يورپی يونين اپنے تاريخ کے ايک تاريک دور ميں داخل ہونے کو ہے۔‘ يہ تنبيہ ايک سو نو ’اين جی اووز‘ يا غير سرکاری تنظيموں کے اس گروپ نے کی ہے، جس ميں ايمنسٹی انٹرنيشنل اور ہيومن رائٹس واچ جيسے بڑے نام بھی شامل ہيں۔ گروپ نے رواں ہفتے کے آغاز پر جاری کردہ ايک بيان کے ذريعے يورپی رہنماؤں سے مطالبہ کيا ہے کہ وہ مہاجرين کی يورپ آمد روکنے کے ليے شمالی افريقہ ميں ان کے آبائی ممالک کے ساتھ متنازعہ معاہدے نہ کريں۔

قبل ازيں اسی ماہ يورپی کميشن کی جانب سے کچھ سفارشات پيش کی گئی تھيں، جن ميں شمالی افريقہ سے يورپی بر اعظم کی طرف ہونے والی غير قانونی ہجرت روکنے کے ليے اُن ممالک ميں نجی سرمايہ کاری بڑھانے کی تجويز شامل ہے، جہاں سے اکثريتی پناہ گزين يورپ ہجرت کر رہے ہيں۔ کميشن کے ايسے منصوبوں کا مقصد يہ ہے کہ متعلقہ ممالک کی اقتصاديات کو بہتر بنايا جائے تاکہ لوگ يورپ کا رخ نہ کريں۔ يورپی کميشن يہ بھی چاہتا ہے کہ مہاجرين کی ان کے آبائی ملکوں کی جانب جلد اور تيز رفتار واپسی ممکن بنانے کے ليے ان ملکوں کے ساتھ پہلے سے موجود معاہدوں کو بحال کيا جائے يا انہيں نئے سرے سے طے کيا جائے۔

يونان ميں ہزاروں پناہ گزين انتہائی ناقص حالات ميں پھنس کر رہ گئے
يونان ميں ہزاروں پناہ گزين انتہائی ناقص حالات ميں پھنس کر رہ گئےتصویر: picture-alliance/dpa/O.Panagiotou

يورپی يونين کے ليڈران کميشن کی جانب سے پيش کردہ سفارشات و تجاويز کا آج سے برسلز ميں شروع ہونے والی دو روزہ سمٹ ميں جائزہ لينے والے ہيں۔

غير سرکاری تنظيموں کے اس گروپ نے کہا ہے کہ يورپی يونين اپنی خارجہ پاليسی کے تعين ميں انسانی حقوق کی پامالی نہ کرے اور نہ ہی بين الاقوامی سطح پر سياسی پناہ کے حق کو نظر انداز۔ ان اداروں نے اپنے بيان ميں کہا ہے کہ غير قانونی ہجرت روکنے کے ليے ڈيلز ميں اس حوالے سے کوئی يقين دہانی نہيں ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزياں نہ ہوں۔ ان تنظيموں نے اپنی وضاحت ميں ترکی اور يورپی يونين کے مابين طے پانے والی ڈيل کی مثال دی، جس کے نتيجے ميں اگرچہ يورپ ميں تارکين وطن کی آمد بہت محدود ہو گئی تاہم يونان ميں ہزاروں پناہ گزين انتہائی ناقص حالات ميں پھنس کر رہ گئے۔