1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وہ تاریخ ساز دن جب جرمن میڈیا خود ہی خبر بن گیا تھا

16 اگست 2018

سولہ اگست سن 1988 کو جرمنی میں ہوئی ایک بینک ڈکیتی اور دو شہریوں کے یرغمال بنائے جانے کے واقعات کی رپورٹنگ کو ملکی میڈیا کی تاریخ میں ’سیاہ ترین باب‘ قرار دیا جاتا ہے۔ اس میڈیا کوریج نے جرمنوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

https://p.dw.com/p/33GHZ
Deutschland Geiselnahme von Gladbeck | Dieter Degowski und Silke Bischoff
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Pfeil

ٹھیک تیس برس قبل آج ہی کے دن یعنی سولہ اگست کو جرمن شہر گلاڈبَیک میں دو ڈاکوؤں نے ایک بینک لوٹا تھا اور فرار ہوتے ہوئے دو افراد کو یرغمال بھی بنا لیا تھا۔ بتیس سالہ ڈیٹر ڈیگووِسکی اور اکتیس سالہ ہانس ژُرگن روزنر کو تب شاید یہ علم نہ تھا کہ جرمن میڈیا ان کے اس جرم کی کوریج کس طرح بڑھا چڑھا کر کرے گا۔

جدید جرمنی کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ تھا، جب ٹیلی وژن چینلز نے اس مجرمانہ کارروائی کو براہ راست نشر بھی کیا تھا۔ اس میڈیا کوریج نے جرمنوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اسی کے نتیجے میں رپورٹنگ کے قواعد و ضوابط بہتر بنانے کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔

Deutschland Geiselnahme von Gladbeck | Dieter Degowski und Silke Bischoff
بتیس سالہ ڈیٹر ڈیگووِسکی یرغمال خاتون پر پستول تانے ہوئے ہے۔ یہ تصویر کافی مشہور ہوئی تھی، فائل فوٹوتصویر: picture alliance/AP Photo/R. Pfeil

اس واقعے کی رپورٹنگ میں صحافیوں نے ڈاکوؤں کے انٹرویوز بھی کیے اور یوں پولیس کی کارروائی متاثر ہوئی۔ ناظرین ٹیلی وژن کی اسکرینوں پر دیکھ سکتے تھے کہ ان ڈاکوؤں نے دو افراد کو کس طرح یرغمال بنایا تھا اور اپنے جرم پر کیا ردعمل ظاہر کیا تھا۔

تب فوٹو جرنلسٹس نے بھی بہتر سے بہتر تصاویر بنانے کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ ایسی تصاویر بھی شائع ہوئیں، جن میں گینگسٹرز نے یرغمالیوں کے سینوں پر پستول تان رکھی تھی۔

Dieter Degowski Gladbecker Geiselnehmer
ڈیٹر ڈیگووِسکی ہاتھ میں پستول تھامے ایک بس میں، یہ مجرمانہ کارروائی سولہ سے اٹھارہ اگست تک جاری رہی، فائل فوٹوتصویر: picture-alliance/AP Photo

ریڈیو رپورٹرز نے ان مجرموں کو مائیکروفون تھما دیے تھے اور انہوں نے بغیر کسی روک ٹوک کے سامعین تک اپنا پیغام بھی پہنچایا تھا۔ یہاں تک کہ ایک گینگسٹر نے تو یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ’اب صرف میڈیا کے ذریعے ہی بات چیت کی جائے گی‘۔ اُس وقت جرمن سامعین، ناظرین اور قارئین اس مجرمانہ کارروائی کا براہ راستہ مشاہدہ کر رہے تھے۔

جب یہ مجرمانہ کارروائی اختتام کو پہنچی تو دونوں یرغمالی ہلاک ہو چکے تھے۔ جرمن عوام سکتے میں تھے اور میڈیا رپورٹنگ میں مصروف تھا۔ پھر یہ سوال ابھرا کہ کیا اس صورتحال کا ذمہ دار میڈیا بنا؟

Rösner Gladbecker Geiselnehmer
ہانس ژُرگن روزنر مجرمانہ کارروائی کے دوران ہی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے، فائل فوٹوتصویر: picture-alliance/AP Photo

میڈیا سائیکالوجسٹ جو گروبل کے مطابق اس واقعے کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں نے نہ صرف گینگسٹرز کی مشہور ہونے کی خواہش کی تکمیل کی بلکہ انہوں نے ان مجرموں کے جنون کو بھی تقویت بخشی اور ایک طرح سے انہیں ایسا کرنے پر اکسایا بھی۔

جرمنی میں صحافیوں کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم DJV کے سربراہ میشائل کونکن نے گلاڈبَیک میں سن 1988 میں رونما ہونے والے اس جرم کی میڈیا کوریج کو یاد کرتے ہوئے کہا، ’’دوسری عالمی جنگ کے بعد کے جرمنی میں یہ صحافت کا سیاہ ترین باب تھا‘۔

Deutschland Geschichte Kultur Presse Gladbecker Geiseldrama
پستول ہاتھ میں تھامے ہانس ژُرگن روزنر ایک صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے، فائل فوٹوتصویر: picture-alliance/ dpa

اس میڈیا کوریج کے بعد جرمنی میں قومی پریس کونسل نے کئی قواعد و ضوابط متعارف کرائے تاکہ مستقبل میں اس طرح کی رپورٹنگ نہ کی جا سکے۔ آج کل جرمنی میں یہ بات خلاف قانون ہے کہ کسی ایسے شخص کا انٹرویو کیا جائے، جس نے کسی کو یرغمال بنا رکھا ہو۔

ع ب / م م / خبر رساں ادارے

Deutschland Haus der Geschichte Ausstellung Skandale in Deutschland
اس مجرمانہ کارروائی کی کوریج ایک ڈرامائی انداز میں کی گئی تھی، فائل فوٹوتصویر: AP