1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وبا کے دور میں تخلیق

20 مئی 2021

دل افسردہ اور ذہن سوالات سے محصور۔ ڈر اور دکھ میں ڈوبے معاشرے میں ادب کی کوئی اہمیت ہے بھی یا نہیں؟ کورونا کے علاوہ کسی اور موضوع پر بات کرنا کیا مناسب ہو گا؟ ایسے قہر کے ماحول میں تخلیق کے کیا معانی ہیں، کیامقاصد ہیں؟

https://p.dw.com/p/3tf5y
Aparna Reddy
تصویر: privat

راہی شہر آشوب سناؤ، کیسی غزل اور کیسا قصیدہ

دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب،

دلی ضرور ہے پر وہ دلی نہیں ہے یہ

ہنستی تو ہے ضرور مگر اپنے حال پہ، اب بات بات پر ویسی ہنستی نہیں ہے یہ

تقریبا 60، 70 برس قبل لکھے گئے راہی معصوم رضا کے یہ الفاظ جیسے دورِ حاضر کا بیان ہو۔ قصیدے، غزل، نظم، مرثیہ، طنز اور احتجاج کی منازل سے گزرتا ہوا اردو ادب اب شہر آشوب پر آ کر ٹھہر سا گیا ہے۔ شہر آشوب یعنی ایک فرد کا نہیں بلکہ سارے شہر کا مرثیہ اور اس عہد میں تو سارے ہندوستان، سارے عالم کا مرثیہ جس میں بیچارگی، بے بسی، بے کیفی، ڈر، دہشت، وحشت اور درد جیسے احساس کورونا  سے سہمے اور خوف کھائے اس زمانے کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں۔

ہم ایسے دور سے گزر رہے ہیں، جب لگتا ہے کہ موت ایک عقاب کی مانند ہمارے درمیان سے اپنوں کو ایک جھپٹے میں لے جاتی ہے اور ہم بے بس ہیں۔ کتنے ہی ادیبوں اور نامور شعرائے کرام کو ہم نے اس جان لیوا وبا کورونا کی وجہ سے کھو دیا۔شمیم حنفی، راحت اندوری، پنڈت آنند موہن زتشی المعروف گلزار دہلوی اور شمس الرحمان فاروقی جو اس وبا سے نکل تو گئے مگر جاں بر نہ ہو سکے۔ زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

دل افسردہ ہے اور ذہن سوالات سے محصور۔ ڈر اور دکھ میں ڈوبے معاشرے میں ادب کا کوئی رول، کوئی اہمیت ہے بھی یا نہیں؟ یہ وقت لکھنے پڑھنے کا ہے بھی یا نہیں؟ کورونا کے علاوہ کسی اور موضوع پر بات کرنا کیا مناسب ہو گا؟ ایسے عتاب اور خدائی قہر والے ماحول میں تخلیق کے کیا معانی ہیں، کیامقاصد ہیں؟۔

جواب بھی ملا۔ بقول منشی پریم چند، ''ہر ایک قوم کا علم و ادب اپنے زمانے کی سچی تصویر ہوتی ہے۔جو خیالات قوم کے دماغ میں گونجتے ہیں اور جو جذبات قوم کے دلوں میں گھر کرتے ہیں، وہی نظم و نثر کے صفحات میں ایسے واضح نظر آتے ہیں جیسے آئینے میں صورت‘‘۔یہ سطور انہوں نے اردو کہانی کے اپنے پہلے مجموعہ 'سوزِ وطن‘ کے پیش لفظ میں قلمبند کی تھیں۔

ماضی قریب کے کئی مشکل دور اور ان کے ادب کے بارے میں سرسری مطالعہ سے ہی یہ واضح تھا کہ جنگ ہو، ملک تقسیم ہوں، دنگے، فساد ہو یا وبا، المیہ بڑے ادب کو جنم دیتا ہے۔ ادب انسانی جذبات اور انسانیت کو پہچاننے کا ایک ذریعہ ہے اور لکھنا ضروری ہے کیوں کہ ہر دور کی طرح اس دور کی بھی بات درج ہونی چاہیے۔

بیسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں برپا پلیگ پر مبنی البئر کامو کی مشہور ناول 'دی پلیگ‘ میں ہمارے دل و دماغ میں رینگ رہے چوہوں کی عکاسی کی گئی، یوں جیسے آج کے ہندوستان کی بات ہو رہی ہو۔ مشہور ادیب راجندر سنگھ بیدی نے بھی 1940 میں پلیگ پر ایک کہانی لکھی تھی ‘‘کورنٹین‘، جسے آج کورونا کے پس منظر میں ایک بار پھر پڑھنا چاہیے۔ لکھتے ہیں: ''پلیگ تو خوفناک تھا ہی، مگر کورنٹین اس سے بھی زیادہ۔ لوگ پلیگ سے اتنے حیران و پریشان نہیں تھے جتنے کورنٹین سے‘‘۔ پھر تقسیم وطن سے جڑا ادب- منٹو کی کہانیاں، کرشن چندر کی لاشوں سے پٹی 'پشاور ایکسرپس‘، بھیشن ساہنی کی 'امرتسر آگیا‘ اور 'تمس‘ اور یشپال کا 'جھوٹا سچ‘، اس پرآشوب دور  کی حقیقت کو ہم تک پہنچا گئے۔ تاریخ اگر سیاسی رنگ لے بھی لے، تو بذریعہ ادب اس المیے اور اس کے سبق کو ہم آج بھی اپنی رگوں میں محسوس کرتے ہیں۔

لکھتے لکھتے غالب کے اشعار یاد آتے ہیں۔ 1857 کی پہلی جنگِ آزادی کے دوران انہوں نے دلی کی بدحواسی دیکھتی تھی۔ ہاں ! تب کورونا وائرس کا قہر نہیں تھا پر حالات آج سے کچھ الگ بھی نہیں تھے۔

رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو

ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو

پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار

اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو

بنگال کے قحط پر جگر مراد آبادی کا مشاہدہ بھی آج کے دور کا بیان ہی لگتا ہے۔

افلاس کی ماری ہوئی مخلوق سرِ راہ

بےگوروکفن خاک بہ سر دیکھ رہا ہوں

یا پھر آج سے تقریبا  40 برس قبل لکھے گئے بشیر بدر کے یہ اشعارکے - یہ نئے مزاج کا شہر ہے، ذرا فاصلے سے ملا کرو

یوں ادب کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو سوال یہ بھی ہے کہ کیا کچھ نہیں بدلا؟ طور طریقے تو ہر گز نہیں بدلے۔ انسانی جذبات و احساسات بھی نہیں۔ ہاں  بدلا ہے تو یہ کہ تیز رفتار انٹرنیٹ کے سبب اب ہر کوئی اپنی تخلیق کو طشت از بام کر رہا ہے۔ ادب، ایک لحاظ سے مشترکہ اور عام فہم ہو رہا ہے اور باآسانی لوگوں تک پہنچ رہا ہے۔ اظہار کا ایک راستہ سامنے آیا- سوشل میڈیا، ویبینار، لائیو مشاعرے وغیرہ۔ اور سب جگہ حالاتِ حاضرہ پر گفتگو ہوتی ہے۔ کورونا پر ہو رہی شاعری انٹرنیٹ پر خوب مقبول ہو رہی ہے اب وہ چاہے کسی بڑے شاعر کی تخلیق ہو، کسی فلمی اداکار کے جذبات یا پھر آپ کے کسی نوعمر دوست کا فکروفن۔ انٹرنیٹ پر رواں دواں دواں ہے، غزل، نظم، آزاد نظم الغرض سب اس وبا کے بارے میں بیان کررہے ہیں۔

لاوارث لاشیں کہیں اور کہیں تابوت

بھیشن مہاویناش کے بکھیرے پڑے ثبوت

شاعر منظر بھوپالی  کا یہ کلام آج کل یوٹیوب پر خوب سنا جا رہا ہے۔

بیچ کر یہ اپنی آتمائیں کھا گئے

مار کر مریضوں کو دوائیں کھا گئے

انہیں پدم شری کا خطاب دیجیے

دیش کی تباہی کا حساب دیجیے

تو ہردل عزیز اداکار آیشمان خرانہ نے یہ طنز رقم کیا ہے۔

اب امیر کا ہر دن رویوار ہو گیا

اور غریب ہے اپنے سوموار کے انتظار میں

شاید پہلی بار شاعری کا استعمال کسی بیماری سے آگاہ کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا اور اخبارات اس طرح کی شاعری سے بھرے ہیں۔ نامور شاعر پروفیسر وسیم بریلوی کہتے ہیں کے انہیں یاد نہیں کہ اب سے پہلے انکی قلم کسی بیماری سے آگاہ کرنے کے لیے چلی ہے۔ فرماتے ہیں:

جہاں بلاتے ہوں خطرے وہاں نہیں جانا

گھروں کو چھوڑ کر ہرگز کہیں نہیں جانا

ہزار چاہو گے پھر زندگی نہ بولے گی

گھروں سے نکلے تو دروازہ موت کھولے گی

اور ہندی کے مشہور صحافی پریہ درشن سہمے ہوئے دل کی گہرائی کو کریدتے ہیں:

... کچھ دکھ ڈر سے بھی پیدا ہوتے ہیں

جیسے کچھ ڈر دکھ سے پیداہوتے ہیں

لیکن ڈر ہو یا دکھ

دونوں اکیلا کردیتے ہیں

یہ اکیلاپن

اب جیون ہوتا جا رہا ہے

غور طلب ہے کہ المیہ چاہے جو ہو، دور چاہے کوئی بھی ہو، جو لافانی قدریں ادب میں جگہ پاتی ہیں وہ آج بھی وہی ہیں۔ اور اس میں آج کے ٹی وی اور سوشل میڈیا پر رائج عام آدمی کی تخلیق بھی شامل ہے۔ حال ہی میں فیس بک 'مکتی گھر کے مردے‘ عنوان سے یہ پڑھنے کو ملا:

تمہاری جان کیسے گئی

ایک مردے نے دوسرے سے پوچھا،

آکسیجن نہیں ملی

تم کیسے مرے

مجھے ہسپتال میں بیڈ نہیں ملا

کتنے سستے میں مر گئے نا ہم لوگ، پہلےنے آہ بھری..

ہمارے بچے اس دیش میں کیسے رہیں گے۔ ہر طرف مہاماری اور نفرت پھیل چکی ہے۔

 تو ایک کام کرتے ہیں۔ خود کو لعنت بھیجتے ہیں اور پھر سے مر جاتے ہیں۔

پھر یہ بھی کہ

ان کی ہدایتیں، ان کی نصیحتیں

نسخے تمام ہیں، لیکن دوا نہیں

دورِ حاضر کے ادب میں غمِ جاناں اور غمِ دوراں ہم قدم نظر آتے ہیں۔ اور نظر آتی ہے انسان کے زندہ رہنے کی زد، کچھ کچھ 'لو اِن دی ٹائمس آف کالیرا‘ کی طرز پر۔

سوشل میڈیا پر ہی پڑھا

پت جھڑ کا ارتھ ہی پھر بسنت کا آنا ہے

دکھوں کے سایہ میں خوشیوں کا مسکرانا ہے

موت کو بھی چیر کر، اب جیون بن جانا ہے

اور راشٹرکوی رام دھاری سنگھ دنکر کے یہ اشعار ذہن پر چھا گئے:

سب تھکے ہیں، سب اکیلے

لیکن پھر آئیں گے میلے

ساتھ ہی لڑنا پڑے گا

ساتھ ہی چلنا پڑے گا