’وائٹ ہاؤس کے لیے دوڑ میں افغان جنگ بھلا دی گئی‘
22 ستمبر 2012واشنگٹن سے خبر ایجنسی اے ایف پی نے لکھا ہے کہ وائٹ ہاؤس تک پہنچنے کی دوڑ میں اس وقت ڈیموکریٹ صدر باراک اوباما دوبارہ انتخاب کے لیے ریپبلکن سیاستدان مٹ رومنی کے حریف امیدوار ہیں لیکن اے ایف پی کے مطابق یہ دونوں صدارتی امیدوار کافی عرصے سے جو انتخابی بیانات دے رہے ہیں ان میں افغانستان کی جنگ ایک گمشدہ موضوع بن چکی ہے۔
اے ایف پی نے اس تجزیے میں لکھا ہے کہ افغانستان میں آج بھی امریکی فوجی ہلاک ہو رہے ہیں۔ وہاں فرائض انجام دینے والے امریکی فوجیوں کی تعداد 70,000بنتی ہے۔ لیکن امریکی رائے عامہ اس وقت افغانستان کی جنگ سے اس حد تک کٹ چکی ہے کہ افغان جنگ کا امریکی سیاست میں کوئی ذکر سننے کو نہیں ملتا۔ اس کے برعکس افغانستان ہی میں مقامی سکیورٹی دستوں کی طرف سے اتحادی فوجیوں پر اتنے زیادہ حملے کیے جانے لگے ہیں کہ نیٹو کو افغان دستوں کے ساتھ اپنا اشتراک عمل محدود کرنا پڑ رہا ہے۔ اے ایف پی نے لکھا ہے کہ امریکی صدارتی انتخابی مہم ایک ایسی دوڑ ہے جس میں اقتصادی موضوعات کو غلبہ حاصل ہے۔
اس کے علاوہ دونوں حریف امیدوار ایک دوسرے پر بڑے نپے تلے حملے کرتے ہیں لیکن آرلنگٹن میں قومی قبرستان کی طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا۔ اے ایف پی نے مزید لکھا ہےکہ آرلنگٹن کے قومی قبرستان میں اب بھی امریکی فوجیوں کی قبریں قطار درقطار بنتی ہیں۔ ان پر نئے قطبے اور فوجیوں کے نام لکھے جاتے ہیں لیکن افغانستان کی بھلا دی جانے والی جنگ میں اس طرف کسی کا دھیان نہیں جا رہا ہے۔
2004اور 2008 کے امریکی صدارتی انتخابات میں عراق بھی ایک موضوع تھا اور افغانستان کی جنگ بھی لیکن موجودہ صدارتی مہم کے دوران امریکی خارجہ پالیسی کے جن موضوعات کا ذکر سننے کو ملتا ہے وہ اسرائیل، چین اور ایران کے بارے میں ہیں۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ ریپبلکن صدارتی امیدوار مٹ رومنی نے تو ریپبلکن نیشنل کنونشن میں اپنے خطاب کے دوران افغانستان کی جنگ کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا تھا۔ یہ بات اس لیے بھی پریشانی کا باعث ہے کہ افغانستان کی جنگ میں اب تک امریکا کے دوہزار سے زائد فوجی ہلاک ہو چکے ہیں اور ہزار ہا زخمی یا معذور ہو چکے ہیں۔
امریکہ میں ایک حالیہ سروے کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ امریکی ووٹروں میں سے نصف کے قریب کو افغان جنگ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ یہ امریکی شہری سوچتے ہیں کہ افغانستان کی جنگ جیتی نہیں جا سکتی۔ تینتیس فیصد امریکی شہریوں کا خیال ہے کہ افغانستان کا تنازعہ اس قابل نہیں ہے کہ اس کے لیے جنگ جاری رکھی جائے۔
(Ij / at ( AFP