نیپالی شاہی محل عجائب گھر بن گیا
1 مارچ 2009فروری سن دو ہزار نو نیپالی عوام کے لئے بہت تاریخی ثابت ہوا۔ اسی ماہ انہیں پہلی مرتبہ سابقہ شاہی محل کے اندر جانے کا موقع ملا جسے حکومت عجائب گھر میں تبدیل کرنے کے بعد عوام کے لئے کھول چکی ہے۔ پہلے ہی دن ہزاروں شہری شاہی طرز زندگی کا مشاہدہ کرنے کے لئے محل کے باہر جمع تھے جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ یہ محل نیپالی عوام کے لئے بہت پرتجسس عمارت رہی ہے۔
کٹھمنڈو میں وزارت ثقافت کے ترجمان جل کرشنا شریشتھا کا کہنا ہے کہ اس محل کا عجائب گھر بننا یقینی تھا: " اس کا کوئی دوسرا متبادل نہیں تھا۔ یہ عمارت کسی سرکاری عہدے دار یا کسی دوسرے مقصد کے لئے موزوں نہیں تھی۔ یہ تو صرف عجائب گھر کے لئے ہی مناسب تھی اور حکومت کا بھی یہی خیال تھا۔ "
یہ حقیقت جھٹلائی نہیں جا سکتی کہ یہ محل ایک المناک واقعے کی یادگار بھی ہے۔ جون 2001 میں اسی جگہ شہزادہ دیپندرہ نے بادشاہ اور ملکہ سمیت شاہی خاندان کے دس افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ بعدازاں اس ولی عہد نے خودکشی کر لی تھی۔ تاہم محل کے جس حصے میں قتل کے واقعات رونما ہوئے اسے چند برس قبل منہدم کر دیا گیا تھا۔
اس محل میں کل 52 کمرے ہیں جن میں سے 19 کو عوام کے لئے کھولا گیا ہے۔ تاہم پہلے روز محل کا دورہ کرنے والے بعض لوگوں کو اس بات پر مایوسی ہوئی کہ ان کمروں سے شاہی طرز زندگی کا تاثر نہیں ملتا تھا۔ وہاں موجود ایک برطانوی خاتون سیاح نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو میں کہا: "اس محل کا موازنہ دنیا کے دیگر محلات سے کیا جائے تو یہ بہت سادہ ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی تزئین و آرائش پر عوام کا بہت پیسہ خرچ نہیں کیا گیا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ حکومت نے زیادہ قیمتی چیزیں کسی اور جگہ منتقل کر دی ہوں۔ "
جب شاہی خاندان کے ارکان اس محل میں رہائش پذیر تھے تو چار سو ملازمین ان کی خدمت پر مامور تھے۔ تاہم اب 82 افراد پر مشتمل عملہ عجائب گھر کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔ حکام یہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ یہ عجائب گھر سیاحوں کے لئے بہت پرکشش ثابت نہیں ہوگا۔ اس بارے میں وزارت ثقافت کے ترجمان شریشتھا کہتے ہیں:" ہم یورپ اور جنوب مشرقی ایشیا میں پہلے ہی بڑے بڑے عجائب گھر دیکھ چکے ہیں۔ یہ محل تو کچھ خاص بڑا بھی نہیں۔ البتہ نیپالی عوام یا جنوبی ایشیا سے آنے والے سیاحوں کو اس میں دلچسپی ہو سکتی ہے۔"