1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیپال میں ہم جنس پسند افراد کی شادی کی قانونی منظوری

7 جنوری 2024

نیپال میں حال ہی میں ایک سس جینڈر مرد اور ایک ٹرانس جینڈر عورت نے اپنی ہم جنس پسندانہ شادی کو قانوناً منظور کروا لیا۔ جنوبی ایشیا میں اپنی نوعیت کے اس اولین شادی شدہ جوڑے میں شامل خاتون قانونی طور پر مرد ہیں۔

https://p.dw.com/p/4auk3
سریندر پانڈے اور مایا گورنگ ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑے ایک عدالت سے باہر آتے ہوئے
سریندر پانڈے اور مایا گورنگ کی شادی کے قانونی طور پر تسلیم کیے جانے میں برسوں لگے تصویر: Subash Shrestha

حال ہی میں ختم ہونے والے سال 2023ء کے آخری ہفتوں میں سریندر پانڈے اور مایا گورنگ نے نیپال کے قانونی طور پر باقاعدہ تسلیم شدہ پہلے ہم جنس پسند جوڑے کا اعزاز حاصل کیا تھا مگر اس کے لیے انہیں کئی سال تک قانونی جنگ لڑنا پڑی تھی۔

نیپال: تیسری جنس کو باضابطہ حیثیت مل گئی

سریندر پانڈے نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کی قانونی طور پر تسلیم شدہ ہم جنس پسندانہ شادی صرف ان کی اپنی انفرادی جیت ہی نہیں بلکہ پوری ہم جنس پسند برادری کی بھی فتح ہے۔ اسی بارے میں ان کی اہلیہ مایا گورنگ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ بہت خوش ہیں کہ انہیں کئی سالہ جدوجہد کے بعد انصاف مل گیا اور اب وہ سریندر پانڈے کے ساتھ ایک جوڑے کے طور پر 'اپنی تکمیل‘ پر بہت مطمئن ہیں۔

طویل قانونی جنگ کا اختتام کیسے ہوا؟

اس جوڑے کا سفر  اتنا آسان نہیں تھا۔  قانونی عمل میں حائل رکاوٹوں اور طوالت کے علاوہ سماجی روویوں کی تلخیوں اور اہل خانہ کی جانب سے شدید دباؤ نے بھی انہیں بہت سی مشکلات سے دوچار رکھا۔ گورنگ کو ان کے اہل خانہ کی تائید و حمایت حاصل تھی جبکہ پانڈے، جو کہ یتیم تھے اور جن کی پرورش ان کے ایک انکل نے کی تھی، کی بہن اس شادی کے شدید خلاف تھیں۔ اس کے باوجود ان دونوں کی شادی عملی طور پر تو ہندو رسم و رواج کے مطابق 2017ء میں ہو گئی تھی، تاہم اس شادی کو قانونی طور پر تسلیم 2023ء کے اواخر میں کیا گیا۔

نیپال، ہم جنس پرستوں کے لیے پہلا آشرم

مایا گورنگ، بائیں، اور سریندر پانڈے اپنی شادی کی قانونی رجسٹریشن کے سرٹیفیکیٹ کے ساتھ
مایا گورنگ، بائیں، اور سریندر پانڈے اپنی شادی کی قانونی رجسٹریشن کے سرٹیفیکیٹ کے ساتھتصویر: Subash Shrestha

عدالتی حکم اور کئی سال تک عمل درآمد میں تاخیر

2007ء میں نیپالی سپریم کورٹ نے اس وقت کی حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ ملکی قوانین میں ایسی ترامیم کرے، جن کے تحت ملک کی ذیلی عدالتیں ہم جنس پسند افراد کی آپس میں شادیوں کو قانونی طور پر منظور  کرنے کی پابند ہوں۔ مگر کھٹمنڈو میں یکے بعد دیگرے کئی حکومتیں ایسا کرنے میں ناکام رہی تھیں۔

برونڈی کے صدر کی ہم جنس جوڑوں کی ’سنگساری‘ کی تجویز

جون 2023 میں پانڈے اور گورنگ نے کھٹمنڈو کی ایک ڈسٹرکٹ کورٹ میں اپنی شادی کو قانوناﹰ منظور کروانے کے لیے ایک درخواست دائر کی تھی۔ انہیں توقع تھی کہ رجسٹریشن کا یہ عمل باآسانی مکمل ہو جائے گا مگر پہلے کھٹمنڈو ڈسٹرکٹ کورٹ اور پھر ایک ہائی کورٹ نے بھی ان کی شادی قانوناﹰ رجسٹر کرنے سے  صاف انکار کر دیا تھا۔ ان عدالتون کے فیصلوں کی بنیاد وہ نیپالی سول کوڈ بنا تھا، جس کے مطابق کوئی بھی شادی صرف ایک مرد اور ایک عورت ہی کے درمیان ہو سکتی ہے۔

ہم جنس نوبیاہتا جوڑے ’خیروبرکت‘ کی دعا لے سکتے ہیں، ویٹی کن

بہرحال پانڈے اور گورنگ نے اپنی قانونی لڑائی جاری رکھی اور بالآخر انہیں کامیابی مل بھی گئی۔ اب وہ دونوں خوش ہیں کہ کسی بھی عام شادی شدہ جوڑے کی طرح وہ بھی اپنا مشترکہ بینک اکاؤنٹ کھول سکتے ہیں، مل کر پراپرٹی خرید سکتے ہیں اور اگر چاہیں تو مستقبل میں کوئی بچہ یا بچے گود بھی لے سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ نیپال کے برعکس ہمسایہ ملک بھارت کی سپریم کورٹ نے گزشتہ برس اکتوبر میں بالکل مختلف حکم سناتے ہوئے ہم جنس پسند افراد کی آپس میں شادیوں کو قانوناﹰ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کے اس سب سے بڑے ملک میں آج بھی یہی صورت حال ہے۔

ع ف/ م م (لیکھ ناتھ پانڈے)

مختلف جنسی میلانات و رجحانات کے حامل افراد سے نفرت کیوں؟