نیٹو کانفرنس اور میرکل کا پارلیمانی خطاب
26 مارچ 2009برلن میں بنڈیس ٹاگ کہلانے والی وفاقی جرمن پارلیمان سے چانسلر میرکل کا خطاب دراصل ان کا ایک تفصیلی حکومتی پالیسی بیان تھا جس میں انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ نیٹو کی قریب ایک ہفتہ بعد ہونےوالی سربراہی کانفرنس اس اتحاد میں شامل ریاستوں کے سربراہان کا ایک ایسا اجلاس ہوگا جس میں مستقبل کی پالیسی اور لائحہ عمل کا تعین کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
اس سلسلے میں انگیلا مریکل نے اپنی تقریر میں اس امر کی بھی وکالت کی کہ نیٹو کو سلامتی کے شعبے میں روس کے ساتھ اپنے قریبی اشتراک عمل کو یقینی بنانا چاہیئے۔ انگیلا میرکل نے پارلیمان سے خطاب کے دوران یہ تجویز بھی پیش کی کہ دفاعی شعبے میں یورپی سیاست سے متعلق ماسکو کےساتھ باقاعدہ مشاورت بھی کی جانا چاہیئے۔
چانسلر میرکل نے اپنی تقریر میں کہا کہ جرمنی بہت سے معاملات میں نیٹو اور اس تنظیم میں اپنے اتحادی ملکوں کی طرف سے ظاہر کی جانے والی یکجہتی کی وجہ سے ان کا شکر گزار ہے جبکہ مغربی ملکوں کا یہ دفاعی اتحاد عالمی سطح پر امن اور آزادی کے حوالے سے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
انگیلا مریکل کے بقول "نیٹو کی اس سربراہی کانفرنس میں اس اتحاد کی حکمت عملی کے نئے سرے سے تعین کا فیصلہ کیا جائے گا جو یہ واضح کردے گا کہ نیٹو اتحاد اپنے قیام کے بعد سے کامیابی کے اب تک کےساٹھ سالہ سفر پراطمینان کا اظہار کرتے ہوئے آرام کے کسی وقفے کا خواہش مند نہیں ہے بلکہ اب وہ مستقبل کے لئے اپنی ترجیحات کے نئے سرے سے تعین پر بھی آمادہ ہے۔"
انگیلا میرکل نے اپنے پالیسی خطاب میں یہ بھی کہا کہ مجموعی طور پر دنیا سے وسیع تر تباہی کا باعث بن سکنے والے ہتھیاروں کا خاتمہ ہونا چاہیئے۔
مختلف خطوں میں نیٹو کے فوجی مشنوں میں سے افغانستان کی مثال دیتے ہوئے جرمن چانسلر نے کہا: "افغانستان میں حالات نے ثابت کردیا ہے اور ہر کسی پر واضح ہو چکا ہے کہ کامیابی صرف اسی وقت ممکن ہے جب نیٹو اتحاد اس ملک میں استحکام کی بہت جامع اور مربوط کوششوں میں ایک حصے کے طور پر اپنے فوجی وسائل کے ساتھ شامل رہے۔"
نیٹوکی اس سربراہی کانفرنس کا انعقاد جرمنی اور فرانس کے تین شہروں باڈن باڈن، Kehl اور شٹراس برگ میں تین مرحلوں میں ہوگا جس میں اس دفاعی اتحاد کے نئی حکمت عملی کی تیاری کا کام شروع کردیا جائے گا۔