نیٹو وزراء دفاع برسلز میں
11 جون 2009بیلجیم کے دارالحکومت میں جاری اس دو روزہ اجلاس میں نیٹو کے وزراء دفاع خلیج عدن میں صومالی قزاقوں کی کارروائیوں کے خلاف موثرحکمت عملی وضع کرنے پر بھی تبادلہء خیال کررہے ہیں۔
نیٹو کو اس وقت بہت سارے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان میں سب سے بڑا اورکٹھن افغانستان کی مخدوش سلامتی کی صورتحال پر قابو پانا ہے۔
نیٹو کی نئی سٹریٹیجی کیا ہے؟ اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ کو افغانستان میں اپنے اور نیٹو فوجیوں کی سربراہی کے لئے نئے کمانڈر کا انتخاب کرنا پڑا ہے۔
امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے سابق کمانڈر جنرل ڈیوڈ میکیرنن سے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا:’’میں نے جنرل ڈیوڈ میکیرنن سے مستعفی ہونے کو کہا ہے۔ یہ تبدیلی کے لئے بالکل صحیح وقت ہے۔ ایک ایسے موڑ پر جب ہم نئی حکمت عملی کی تکمیل کے آغاز پر ہیں۔‘‘
افغانستان میں اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کے تحت انٹرنیشنل سیکیورٹی اسسٹینس فورس ISAF کے 61 ہزار فوجی اہلکار تعینات ہیں۔ اس کے علاوہ امریکی صدرباراک اوباما 21 ہزار مزید فوجیوں کو افغانستان بھیجنے کے اعلانات کرچکے ہیں۔ فوجیوں کی تعداد بڑھانے کا مقصد بالکل واضح ہے اوروہ یہ کہ طالبان کی سرگرمیوں پر مکمل طور پر قابو پایا جاسکے۔
کیا افغانستان میں مستقبل قریب میں پائیدارامن کا قیام ممکن ہے؟ اس حوالے سے افغانستان کے وزیر دفاع عبدالرحیم واردک کہتے ہیں کہ اگر امریکہ اور نیٹو اپنے وعدوں کو پورا کرتے ہیں تو جلد ہی ان کا ملک بین الاقوامی فورسز کی مدد کے بغیر اپنا دفاع کرنے کے قابل بن سکے گا۔ عبدالرحیم واردک نے ان خیالات کا اظہار برسلز میں نیٹو کے وزراء دفاع کے ساتھ اپنی ملاقات کے دوران کیا۔
’’اگر نئی امریکی سٹریٹیجی کی مکمل طریقے سے تکمیل ہوتی ہے تو میری رائے میں مستقبل قریب میں ہم خود اپنے ملک کا دفاع کرسکیں گے۔ جیسا کہ ماضی میں ہم نے ہزاروں برسوں تک کیا ہے۔‘‘
امریکی اورنیٹو فورسز افغانستان کے مختلف حصّوں میں سرگرم عمل طالبان عسکریت پسندوں کا مقابلہ کررہے ہیں۔ مغربی دستوں کا کام افغانستان کے فوجیوں، نیم فوجی دستوں اور پولیس فورسز کی تربیت کرنا بھی ہے۔
رپورٹ : گوہر نذیر گیلانی
ادارت : عاطف توقیر