1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نمک کم تو 'دل' مضبوط

19 جنوری 2010

غذا میں نمک کی مقدار میں کمی کا براہ راست اثر انسانی صحت پر مثبت تبدیلیوں کی صورت میں پڑتا ہے۔ امریکی ریاست نیویارک کا محکمہ صحت ان دنوں دل کے امراض پر قابو پانے کے حوالے سے ایک تشہیری مہم چلا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/LZtC
عمومی طور پر بازار میں بکنے والی اشیاء میں نمک کی مقدار زیادہ ہوتی ہےتصویر: picture-alliance/chromorange

اس مہم میں نمک کے استعمال سے پیدا ہونے والے مسائل کے حوالے سے عوامی آگہی میں اضافے کی کوشش کی جارہی ہے۔ نیویارک محکمہ صحت کے مطابق ریستورانوں اور ڈبہ بند خوراک میں نمک کا استعمال کی شرح گھر میں پکے ہوئے کھانوں کی نسبت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ نمک کی مقدار جسم میں بڑھنے کا سب سے پہلا اثر یہ ہوتا ہے کہ انسانی جسم میں دوران خون تیز ہو جاتا ہے اور رفتہ رفتہ یہ انسان کو ہائی بلڈ پریشر کی بیماری میں مبتلا کردیتا ہے۔ ہائی بلڈپریشر دل کے دورے اور اسٹروک کی سب سے اہم وجہ قرار دیا جاتا ہے۔

Biotechnologin untersucht auf Legionärskrankheit
اس مہم کے تحت پانچ برسوں میں نمک کے استعمال میں 20 فیصد کمی کا ہدف مقرر کیا گیا ہےتصویر: AP

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہائی بلڈ پریشر اور غذا میں نمک کی مقدار کا براہ راست تعلق ہے اور اسی بنیاد پر اس مرض میں مبتلا مریضوں کو نمک کی کم سے کم مقدار استعمال کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ حالانکہ چند ادویات ایسی ہیں، جو جسم میں بلڈ پریشر کے اسباب کے خلاف مدافعت میں اضافہ کرتی ہیں مگر پھر بھی مختلف تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اگر نمک کا استعمال نصف کیا جائے تو بلڈ پریشر میں بھی واضح کمی ریکارڈ کی جاتی ہے۔

ایک عام صحت مند آدمی کی غذا میں روزانہ تقریبا 10 سے 16گرام سوڈیم کلورائیڈ شامل ہوتا ہے اور اگر غذاﺅں میں نمک استعمال کم کیا جائے تو اس مقدار کو گھٹا کر 2سے 4گرام تک کیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا مریض چوبیس گھنٹوں میں زیادہ سے زیادہ 5سے 6گرام نمک استعمال کرسکتے ہے۔

نیویارک صحت انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس مہم کے تحت ڈبہ بند غذاؤں، رستورانوں اور عوام میں نمک کے استعمال کے خلاف شعور میں اضافہ کرتے ہوئے اگلے پانچ برسوں میں نمک کے استعمال میں بیس فیصد کمی کا ہدف مقرر کیا گیا ہے اور اس ہدف کو پورا کرنے کی صورت میں ایک طرف تو ہزاروں قیمتی جانیں بچیں گی جبکہ ساتھ ہی صحت عامہ کے شعبے میں اربوں ڈالر کی بچت بھی ہو گی۔

رپورٹ : عاطف توقیر

ادارت : کشور مصطفیٰ