ناسا کا مشن اور مریخ پربرف
6 اکتوبر 2008مریخ پر اترنے والے Phoenix Mars Lander پر لیزر کی مدد سےکام کرنے والے ایسے آلات بھی نصب ہیں جن کے ذریعے یہ پتہ لگانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مریخ کی سطح اور فضا کا آپس میں کیا ربط ہے۔ یہ انہی لیزرآلات کے باعث ممکن ہو سکا کہ مریخ پر جہاں زمین سے بھیجا جانے والا یہ خلائی مشن اترا تھا، وہاں قریب چار کلومیٹر یا ڈھائی میل کی اونچائی پر بادلوں سے برف بھی گرتی ہوئی دیکھی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ برف مریخ کی سطح تک پہنچنے سے پہلے ہی بخارات میں تبدیل ہو گئی۔
Phoenix نامی خلائی جہاز پر نصب موسمیاتی اسٹیشن کینیڈا کے ماہرین کامہیا کردہ ہے جن کی سربراہی ٹورانٹو میں یارک یونیورسٹی کےجم وائٹ وے کررہے ہیں۔جم وائٹ وے کہتے ہیں کہ مریخ پر ایسا کوئی منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ اب ہمیں ایسے شواہدتلاش کرنا ہیں کہ یہ برف مریخ کی فضا سے اس سیارے کی سطح تک بھی پہنچ سکتی ہے۔
ناسا کے اسی سال مئی کے مہینے میں مریخ کے قطبی علاقے میں اترنے والے اس خلائی جہازنے اب تک وہاں مٹی پر جو تجربات کئے ہیں ان سے اس بارے میں بھی ڈرامائی معلومات حاصل ہوئی ہیں کہ ماضی میں وہاں مائع حالت میں پانی اور مختلف معدنیات کے درمیان کیمیائی عمل ہوتے رہے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے کہ زمین پر۔
مریخ پر اترنے والے ناسا کے خلائی جہاز کی اب تک ارسال کردہ معلومات کافی حد تک یہ پتہ بھی دیتی ہیں کہ زمین کے ہمسائے میں موجود اس سیارے پر کیلشیئم کاربونیٹ بھی موجود ہے جو چاک میں شامل سب سے اہم عنصر ہوتا ہے اور وہاں ممکنہ طور پر ایسے ذرات بھی پائے جاتے ہیں جنہیں مٹی کا نام دیا جا سکتا ہے۔
مریخ پر پانی کی موجودگی کے سلسلے میں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ زمین پرجہاں کہیں بھی مختلف کاربونیٹس وجود میں آتے ہیں وہاں قریب ہی کسی نہ کسی شکل میں پانی بھی ہوتا ہے۔ امریکہ میں ایری زونایونیورسٹی کے حرارت اورگیسوں کے اخراج کے منصوبے Thermal and Evolved Gas Analyzer یا TEGA کی سربراہی کرنے والے سائنسدان ویلیئم بوئنٹن کا کہنا ہے کہ مریخ کی سطح پر ملنے والے کاربونیٹس اس امر کا ثبوت ہیں کہ ماضی میں وہاں رونما ہونے والی کیمیائی تبدیلیوں میں پانی اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔
ایری زونا یونیورسٹی کے Phoenix سے حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر چھان بین کرنے والے سب سے بڑے ماہر پیٹر سمتھ کے بقول وہ اور ان کے ساتھی ابھی تک یہ ڈیٹا جمع کررہے ہیں جس کے مختلف پہلوؤں سے تجزیئے کا عمل مستقبل میں کافی دیر تک جاری رہے گا۔
مریخ کے قطب شمالی کے قریب 25 مئی کے روزلینڈ کرنے والے Mars Lander نے تحقیقی مشاہدے کے لئے وہا ں بالائی سطح پر تھوڑی تھوڑی کھدائی کا کام تو کچھ ہی دیر بعد شروع کردیا تھا اور پھر جون کے مہینے کے بعد سے ملنے والی معلومات سے یہ ثابت ہونا شروع ہو گیا کہ مریخ کی فضا میں بادلوں میں جو سفید مادہ دیکھا گیا تھا وہ برف تھی۔
ان جملہ معلومات کی روشنی میں سائنسدان اب یہ طے کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ آیا مریخ کی سطح پر یا فضا میں برف پگھلتی بھی ہے یا نہیں۔ اس لئے کہ اگر تواس برف کا پگھلنا ثابت ہو گیا تو کافی حد تک یہ امید بھی پیدا ہو جائے گی کہ مریخ کی سطح وہاں کبھی زندگی کے لئے ساز گار بھی رہی ہو گی۔ یہی اس وقت وہ سب سے بڑا سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنا دراصل اس مشن کا بنیادی مقصد بھی ہے۔