1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نئی دہلی کا مصطفیٰ آباد، نفرت کا شکار ہو گیا

29 فروری 2020

نئی دہلی تقریباً پانچ ایام تک ہندو مسلم فسادات کی زد ميں رہا۔ افراتفری تھم جانے کے بعد کئی دہائيوں کے ان بد ترين مذہبی فسادات کے دوران ڈھائے گئے مظالم اور اس وقت کی زمينی صورتحال کے حوالے سے بہت سے حقائق سامنے آ رہے ہيں۔

https://p.dw.com/p/3Yea0
Indien Neu Delhi | Unruhen durch Proteste für und gegen neues Gesetz zur Staatsbürgerschaft
تصویر: Reuters/A. Abidi

امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ بھارت کے موقع پر پھوٹنے والے نسلی و فرقہ وارانہ فسادات کافی شدت اختيار کر گئے تھے۔ معاملہ بھارت کے شہريت ترميمی قانون کی حمايت اور اس کی مخالفت ميں کيے گئے مظاہروں سے شروع ہوا۔ مخالف گروپوں کے اس مظاہرے نے پير تيئیس فروری کو پہلے ہی روز شدت اختيار کر لی اور کئی مقامات سے جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئيں۔ پھر بہت جلد صورتحال نے مذہبی فسادات کی شکل اختيار کر لی۔ خبر رساں ادارے ايسوسی ايٹڈ پریس نے اس بارے ميں ايک تفصيلی رپورٹ شائع کی ہے، جس ميں دھول بيٹھنے کے بعد نقصان کا جائزہ ليا گيا ہے۔

سب سے پہلے زخميوں کے گروپ آئے، پھر ويل چيئروں پر بيٹھے زخمی۔ کسی کا سر کھلا پڑا تھا، تو کسی کی گردن ميں خنجر کے وار تھے۔ پھر موٹر سائيکلوں اور رکشاؤں پر مريضوں کے جُھنڈ آنے شروع ہوگئے۔ جب نئی دہلی کے مصطفی آباد نامی علاقے ميں يہ فسادات جاری تھے، اس وقت الہند ہسپتال ايک کلينک سے ايک ہنگامی مرکز بن چکا تھا۔ ايم اے انور ان ڈاکٹروں ميں سے ايک ہيں، جنہوں نے سب سے پہلے زخميوں کو ديکھنا شروع کيا۔ وہ کہتے ہيں، ’’ميں رونا چاہتا تھا، چيخنا چاہتا تھا۔‘‘ ڈاکٹر انور کے بقول ان دنوں ميں جيسے ان کے اندر بھی کچھ مر گيا تھا۔

سرکاری طور پر ان فسادات کے شروع ہونے کی ابھی تک کوئی وجہ نہيں بتائی گئی ہے۔ البتہ اس دوران کم از کم بياليس افراد ہلاک ہوئے۔ ان گنت مکانات، مساجد اور ديگر نجی و سرکاری املاک کو بھی نقصان پہچا۔ ہلاک شدگان ميں سے چند ايک کی تو شناخت تک نہيں ہو پائی کيونکہ ان پر کيا گيا تشدد اس قدر شديد تھا۔ اگرچہ ہندو اور مسلمان دونوں ہی تشدد کے مرتکب پائے گئے ليکن متاثرين کی اکثريت مسلم تھے۔

Indien Delhi Demonstration gegen Gewalt
تصویر: DW/P. Samanta

بھارت ميں متنازعہ شہريت ترميمی قانون کی منظوری کے بعد دسمبر ميں بھی مظاہرے جاری رہے تھے۔ اس وقت بھی ملک گير سطح پر احتجاج اور حکام کی جوابی کارروائيوں کے دوران  تيئس افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ليکن جو کچھ مصطفیٰ آباد ميں ہوا، ہ کہيں زيادہ ظالمانہ تھا۔ مسلح حملہ آوروں کے گروپوں نے لوگوں کو تلواروں سے گھائل کیا  تو کہيں لوگوں کو زندہ جلايا۔ ايک ہندو انٹيليجنس آفيسر کو چاقو کے کئی وار کر کے قتل کيا گيا اور اس کی لاش گندے نالے ميں پھينک دی گئی۔ ايک مسلم شخص کی ٹانگوں کو اس قدر بے دردی سے چيرا گيا کہ اس کا نچلا جسم دو حصوں ميں تقسيم ہوگيا۔ کہيں مشتعل ہجوم نے مسجد کے مينار پر چڑھ کر اس کے تقدس کو پامال کیا۔

اس سب کچھ کے دوران پوليس کے کردار پر بھی کئی سوالات اٹھے۔ نئی دہلی پوليس کے ترجمان انيل متل نے ايسے تاثرات رد کيے کہ پوليس نے حملہ آوروں کی مدد کی۔ البتہ الہند ہسپتال کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ حکام نے چند واقعات ميں ايمبولينسوں کو ان مقامات تک پہنچنے سے روکا، جہاں لڑائی جاری تھی اور زخمی پڑے تھے۔

بدھ کی سہ پہر تک تشدد رک چکا تھا۔ ڈاکٹر انور اس وقت تک چار سو سے زائد زخميوں کا علاج کر چکے تھے اور ايک سو کو بڑے ہسپتال منتقل کر چکے ہیں۔ درجنوں اب بھی نازک حالت ميں ہيں۔ ہسپتال نے لگ بھگ پچاس لوگوں کو پناہ بھی فراہم کی گئی۔ مصطفیٰ آباد ميں صفائی ستھرائی جاری ہے ليکن شايد نفرت کے نشانات کبھی نہ مٹ پائيں گے۔

شاہین باغ میں خواتین کا احتجاج جاری

ع س / ع ح، نيوز ايجنسياں