1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نئی حکومت سے میرکل کا پہلا خطاب، مہاجرین اور اسلام کا تذکرہ

21 مارچ 2018

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اعتراف کیا ہے کہ سن دو ہزار پندرہ میں مہاجرین کی بڑی تعداد میں آمد کی وجہ سے جرمنی تقسیم ہوا تاہم انہوں نے اس عہد کا اعادہ کیا ہے کہ ان کی چوتھی مدت اقتدار کے دوران ایسا دوبارہ نہیں ہو گا۔

https://p.dw.com/p/2ujGW
Bundestag - Angela Merkel gibt Regierungserklärung ab
تصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے چوتھی مرتبہ چانسلر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اکیس مارچ بروز بدھ اپنے پہلے اہم پارلیمانی خطاب میں مہاجرین سے متعلق سخت موقف اختیار کرتے ہوئے اسلام کے بارے میں مثبت پیغام دیا۔ انہوں نے کہا کہ جرمنی تمام مسائل پر قابو پا سکتا ہے اور’ہم سب جرمن ہیں‘۔ جرمنی کی نومنتخب وسیع تر مخلوط حکومت کے قیام کے بعد میرکل نے اپنے اولین پارلیمانی خطاب میں نئی مدت کے لیے منصوبہ جات بیان کیے۔

میرکل ملکی پارلیمنٹ سے خطاب میں اہم امور پر بات کریں گی

مسلمان اور اسلام دونوں جرمنی کا حصہ ہیں

’اسلام جرمنی کا حصہ نہیں‘

’اسلام جرمنی کا حصہ ہے یا نہیں‘

میرکل کا کہنا ہے کہ سن دو ہزار پندرہ اور سولہ میں مہاجرین کی بڑی تعداد میں جرمنی آمد کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے تاہم جرمنی نے اس ’غیرمعمولی بحران’ پر قابو پا لیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس مخصوص وقت میں ایک ملین مہاجرین کو جرمنی آنے کی اجازت دینا دراصل ’ایک غیرمعمولی استثنا‘ تھا لیکن اب ایسا دوبارہ نہیں کیا جائے گا۔

میرکل نے واضح کیا کہ جرمنی مستقبل میں بھی سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو قبول کرے گا لیکن ساتھ ہی ایسے تارکین وطن کی ملک بدری کا سلسلہ تیز کر دیا جائے گا، جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔

جرمن چانسلر میرکل کو نہ صرف عوامیت پسند ووٹرز بلکہ سیاسی سطح پر بھی دباؤ کا سامنا ہے کہ وہ اپنی مہاجرین سے متعلق پالیسی کو سخت بنائیں۔ گزشتہ برس کے انتخابات میں ان کی عوامی مقبولیت میں کمی اور مہاجرین مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کی مقبولیت میں اضافے کی وجہ بھی ان کی مہاجر پالیسی کو قرار دیا جاتا ہے۔

انگیلا میرکل نے کہا کہ ترکی اور اٹلی سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن افراد نے دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی کی تعمیر نو میں اہم کردار ادا کیا تھا اور اب ان کی نسلیں جرمنی کے مرکزی معاشرتی دھارے کا اہم حصہ ہیں۔

انہوں نے جرمنی میں مقیم مسلمان کمیونٹی کو خوش آمدید قرار دیا، ’’اس بارے میں سوال نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے ملک کے ارتقاء میں مسیحیت اور یہودیت نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ تاہم یہ بھی اہم ہے کہ اس وقت جرمنی میں 4.5 ملین مسلمان بھی ہمارے ساتھ رہ رہے ہیں۔ ان کا مذہب اسلام بھی جرمنی کا حصہ بن چکا ہے۔‘‘

انگیلا میرکل نے اس خطاب میں اپنی اقتصادی پالیسی کے خدوخال بھی واضح کیے۔ انہوں نے کئی سماجی مراعات کا اعلان بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان منصوبہ جات سے تمام شہریوں کو فائدہ ہو گا۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ جرمنی کا آئندہ چار سالہ بجٹ متوازن ہو گا، جس میں ملک میں بے روزگاری کی شرح کو مکمل ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس موقع پر میرکل نے دہرایا کہ یورپی یونین میں مزید مضبوطی استحکام کا باعث ہے، اس لیے تمام ممالک کو اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

ع ب / ا ا / اے ایف پی