1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میونخ کانفرنس: شامی بحران کا حل، عالمی برادری کی ناکامی

کنپ کیرسٹن/ کشور مصطفیٰ3 فروری 2014

میونخ کانفرنس میں بار بار شام کا بحران اور وہاں کا انسانی المیہ زیر بحث لایا گیا تاہم اس بارے میں متنازعہ گفتگو نہ ہوئی اور خلاصہ یہ کہ چند کلیدی نوعیت کے سوالات جواب طلب ہی رہے۔

https://p.dw.com/p/1B1uf
تصویر: picture-alliance/dpa

جرمنی کےجنوبی شہر میونخ میں جمعہ اکتیس جنوری سے شروع ہوکر دو فروری تک جاری رہنے والی تین روزہ بین الاقوامی سکیورٹی کانفرنس کا مرکزی موضوع گرچہ شام کا بحران اور اس کے ممکنہ حل کی کوششیں تھا، تاہم عالمی برادری کے نمائندے اس بارے میں کوئی ٹھوس حکمت عملی طے کرنے میں ناکام رہے۔

میونخ کانفرنس میں بار بار شام کا بحران اور وہاں کا انسانی المیہ زیر بحث لایا گیا تاہم اس بارے میں متنازعہ گفتگو نہ ہوئی اور خلاصہ یہ کہ چند کلیدی نوعیت کے سوالات جواب طلب ہی رہے۔ تاہم کانفرنس کے شرکاء نے شام سے متعلق مذاکرات کی ناکامی کا اقرار کیا۔

میونخ کانفرنس میں ہونے والی بات چیت کا ایک روشن پہلو چند ہی دنوں میں شروع ہونے والے ’سوچی سرمائی اولمپک گیمز‘ کا موضوع تھا۔ اس کے بارے میں ایک کمزور سی امید ظاہر کی گئی کہ یہ ایونٹ بغیر کسی تشدد کے منعقد ہو سکے گا۔ اس طرح اولمپک کھیلوں کی قدیم روایت قائم رہے گی۔ یونان کی تاریخ میں اولمپک مقابلوں کے زمانے میں کم از کم ان کھیلوں کے انعقاد کے دوران ہتھیار خاموش ہوجایا کرتے تھے۔

München - Sicherheitskonferenz Javad Zarif und John Kerry
جواد ظریف اور جان کیری میونخ سکیورٹی کانفرنس میںتصویر: Getty Images

اس کے برعکس شام کے بحران کے سلسلے میں کسی سیاستدان، لیڈر یا وزیر نے کوئی حوصلہ افزا بیان نہیں دیا۔ خاص طور سے گزشتہ ہفتے سوئٹزرلینڈ کے مقام مونترو میں کئی روز جاری رہنے کے بعد کسی ٹھوس نتیجے کے بغیر ختم ہونے والے شام امن مذاکرات کے بعد کسی کی ہمت نہیں ہو رہی کہ وہ شامی تنازعے کے بارے میں کوئی پیشگوئی کر سکے۔ میونخ سکیورٹی کانفرنس میں شامل ترک وزیر خارجہ احمت داؤد اُگلو نے کہا، ’’آئندہ 50 برسوں تک ہم اس حقیقت کو یاد رکھیں گے کہ 2013ء میں شام کے بحران کے حل کے بارے میں منعقد ہونے والے اجلاس میں عالمی برادری شامی باشندوں پر ہونے والے زہریلی گیس کے حملے کو رکوانے میں ناکام رہی تھی‘‘۔ ترک وزیر خارجہ نے یہ بیان طنز کرتے ہوئے دیا، کیونکہ اس سال کی میونخ سکیورٹی کانفرنس اس کی گولڈن جوبلی یعنی 50 ویں سالگرہ کے موقع پر منعقد ہوئی تھی۔

حقائق پر بحث کی بجائے بیان بازی

میونخ سکیورٹی کانفرنس میں سعودی شہزادہ ترکی الفیصل نے، جو فیصل سینٹر فار ریسرچ اینڈ اسلامک اسٹیڈیز کے ڈائریکٹر بھی ہیں، شام کے بحران کے حوالے سے متعدد ممالک پر الزام عائد کیا۔ انہوں نے شامی صدر بشارالاسد کو قتل عام اور انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے کہا، ’’میں ایران اور حذب اللہ کو اسد کی حمایت کرنے کا قصوروار ٹھہراتا ہوں، میں النصرہ جیسے جہادی گروپوں کو بھی انسانیت کے خلاف جنگی جرائم کا مرتکب سمجھتا ہوں‘‘۔ سعودی شہزادے کی یہ فہرست یہیں ختم نہیں ہوئی۔ انہوں نے اقوام متحدہ سمیت متعدد مغربی ممالک پر بھی شامی بحران کے حوالے سے الزامات عائد کیے۔ تاہم فرانس پر انہوں نے کوئی الزام نہیں لگایا کیونکہ یہ وہ یورپی ملک ہے جس نے شامی صدر اسد کی طرف سے مبینہ طور پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بعد اوباما کی طرف سے فوجی حملے کی دھمکی کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ شہزادہ ترکی الفیصل کی اس فہرست میں تاہم اُن کا اپنا ملک سعودی عرب اور قریبی حلیف قطر کا نام شامل نہیں تھا۔ اس پر کانفرنس کے شرکاء میں بحث و مباحثہ شروع ہوگیا۔

Syrien-Sicherheitskonferenz in Montreux
شام میں امن کی بحالی کی کوششوں میں بان کی مون کو بھی اب تک خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

مغربی ممالک کا مؤقف

شامی اپوزیشن کو ہتھیاروں کی امداد نہ دینے کے بارے میں مغربی ممالک کا جواز یہ رہا ہے کہ انہیں خطرہ ہے کہ یہ ہتھیار نام نہاد جہادیوں کے ہاتھ لگ جائیں گے۔ شام میں فعال کردار ادا کرنے والے جہادی گرپوں کا نام آتے ہی دو ممالک زیر غور ہوتے ہیں، ایک سعودی عرب اور دوسرا قطر۔ تاہم میونخ کانفرنس میں موجود امریکی سینیٹر جان مک کین نے اس موضوع پر سرے سے بات ہی نہ ہونے دی۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ سعودی شہزادہ ترکی الفیصل کی موجودگی میں یہ موضوع زیر بحث آئے۔

کوئی تنازعہ نہیں

تین روزہ میونخ سکیورٹی کانفرنس کے دوران بار بار شام کا موضوع سامنے آتا رہا تاہم تمام شرکاء مشترکہ طور پر یہ قبول کر لیتے کہ شام امن مذاکرات ناکام رہے ہیں لیکن اس کی وجوہات پر کوئی لب کھولنے کو تیار نظر نہیں آیا۔ تاہم اس بحران کے چند مرکزی کرداروں کے نمائندوں نے اپنی اپنی صفائی پیش کردی۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کا کہنا تھا کہ اُن کا ملک تنہا اسد حکومت پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ یہ بیان گرچہ از خود بحث کا موضوع بن سکتا تھا تاہم کسی نے بھی اس بیان کو متنازعہ نہیں کہا اور نہ ہی لاوروف کی کسی نے تردید کی۔ اُدھر ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے شام کے ایٹمی مذاکرات سے متعلق ایک پینل مباحثے کے دوران کہا کہ تہران نے شام میں فائربندی کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دمشق میں قائم ایرانی سفارتخانہ پوری کوشش کر رہا ہے متاثرہ انسانوں کوضروری امدادی اشیاء کی فراہمی کی۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا، ’’اہم ترین سوال یہ ہے کہ دوسری جانب سے جنگ جاری رکھنے والوں اور صورتحال کو اپنے کنٹرول میں رکھنے والوں تک ہم کس طرح پہنچیں اور انہیں فائر بندی پر کس طرح آمادہ کیا جائے؟‘‘ ظریف کے بقول، ’’یہ جنگجو، وہ نہیں جو سوئٹزرلینڈ میں منعقدہ امن مذاکرات کی میز پر بیٹھے تھے۔‘‘