1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’میسوت اوزل کا جواب خاموشی میں ہی ہے‘

عاطف بلوچ Jörg Strohschein
14 جولائی 2018

جرمن فٹ بال مداح اس انتظار میں ہیں کہ ترک نژاد جرمن اسٹار کھلاڑی میسوت اوزل ’ایردوآن افیئر‘ پر اپنی خاموشی کب توڑیں گے۔ فیفا ورلڈ کپ 2018 میں جرمن ٹیم کی ہزیمت آمیز ناکامی پر اوزل شدید تنقید کی زد میں بھی ہیں۔

https://p.dw.com/p/31RTy
Mesut Özil
تصویر: picture-alliance/Photoshot

میسوت اوزل کی شخصیت کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ ’ایردوآن افیئر‘ پر اپنی صفائی پیش نہیں کریں گے۔ فٹ بال عالمی کپ 2018 سے قبل محسوت اوزل نے ترک صدر رجب طیب ایردوآن سے ملاقات کی تھی اور ان کے ساتھ اوزل کی تصویر بھی سوشل میڈیا پر کافی شیئر کی گئی تھی۔

اوزل کی ایردوآن سے ملاقات کو شدید تنقید کا نشانہ تو بنایا ہی گیا تھا تاہم ورلڈ کپ میں جرمن قومی فٹ بال ٹیم کی ناقص کارکردگی کے بعد اوزل پر تنقید میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس ٹورنامنٹ میں اوزل بھی خاص کھیل پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔

کئی ناقدین عالمی کپ سے دفاعی چیمپئن جرمنی کے ابتدائی اخراج کا مرکزی ذمہ دار اوزل کو ہی قرار دے رہے ہیں۔ دوسری طرف کچھ مبصرین اوزل کے دفاع میں بھی بیان دے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ روس میں کھیلے جا رہے عالمی کپ میں جرمن ٹیم کی ناقص کارکردگی کی ذمہ دار جرمن فٹ بال فیڈریشن DFB ہے نا کہ اوزل۔

اس تمام تنازعے میں اوزل مکمل خاموش ہیں۔ انہوں نے نہ تو ترک صدر سے ملاقات کے بارے میں کوئی بیان دیا ہے اور ہی ورلڈ کپ میں جرمنی ٹیم کی شکست یا اپنی بری کارکردگی پر۔

Erdogan mit Özil (picture-alliance/dpa/Uncredited/Presdential Press Service)
ترک صدر ایردوآن اور اوزل کی تصویر سوشل میڈیا پر کافی شیئر کی گئیتصویر: picture-alliance/dpa/Presidential Press Service

یہ رویہ اوزل کی شخصیت کا آئنہ دار بھی ہے۔ وہ شروع سے ہی بیان بازی سے احتزاز کرتے ہیں اور اگر ان کا ماضی دیکھا جائے تو تنازعے کی صورت میں وہ خود کو ان حالات سے خاموشی سے دور کر لیتے ہیں، جو عوامی بحث کا باعث بن جاتے ہیں۔

انتیس سالہ اوزل کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بیان کے بجائے اپنے کھیل سے خود کو منوائیں۔ گیارہ برس قبل جب انہوں نے جرمن کلب شالکے کے لیے کھیلنا شروع کیا تھا تو اوزل اور کلب انتظامیہ کے مابین جرسی کے نمبر پر پیدا ہونے والے اختلافات میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے تھے۔ تاہم اس وقت بھی اوزل نے کوئی بیان دیے بغیر ہی اپنا کلب بدل لیا تھا۔

شالکے سے الگ ہو کر اوزل جرمن کلب ویردر بریمن کے لیے کھیلے اور جلد ہی ہسپانوی فٹ بال لیگ لا لیگا کی مشہور ٹیم رئیل میڈرڈ کا حصہ بن گئے۔ جب میڈرڈ کلب نے گیرتھ بیل، اِسکو اور الیارماندی کو خریدا تو اوزل نے اس کلب کو بھی خاموشی سے خیر باد کہہ دیا۔ یہ تینوں کھلاڑی بھی اوزل کی طرح مڈ فیلڈر ہیں۔ اب اوزل آرسنل کی ٹیم کا حصہ ہیں۔

میسوت اوزل کا کہنا ہے کہ وہ صرف اسی ٹیم کے لیے کھیلتے ہیں، جہاں وہ خود کو پرسکون محسوس کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے جرمن قومی ٹیم میں انہیں ہر قسم کا تعاون حاصل رہا ہے۔ کوچ یوآخم لوو اوزل کو اپنا ایک اہم ہتھیار قرار دیتے رہے ہیں۔ دوسری طرف اوزل نے بھی لوو کے اعتماد کا جواب اپنی لاجواب پرفارمنسز سے دیا ہے۔

تاہم حالیہ ورلڈ کے گروپ ایف میں کھیلے گئے سویڈن کے خلاف جرمنی کے میچ میں لوو نے اوزل کو ابتدائی ٹیم کا حصہ نہیں بنایا۔ سن دو ہزار دس کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ اوزل بینچ پر بیٹھے۔ اوزل کے نزدیک اس میچ کی ابتدائی ٹیم میں انہیں شامل نہ کرنا دراصل انہیں ’قربانی کا بکرا‘ بنانے کے مترادف ہے۔

میسوت اوزل کی شخصیت کو دیکھتے ہوئے اب یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ آیا وہ جرمن قومی فٹ بال ٹیم کو خیرباد کہہ دیں گے؟ ترک صدر ایردآن سے ملاقات کے بارے میں بھی ان کی خاموشی میں جواب موجود ہیں۔