1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میرکل نے یورپی قلعے میں داخل ہو کر خود کو بچا لیا، تبصرہ

3 جولائی 2018

ایک بےوقار بحران کے بعد چانسلر انگیلا میرکل نے مصالحت کرتے ہوئے پناہ گزینوں سے متعلق اپنی پالیسی کو زمین بوس ہونے سے بچا لیا ہے۔ تاہم تبصرہ نگار اینس پوہل کے مطابق فراخ دلانہ مہاجر پالیسی اب ماضی کا حصہ بن چکی ہے۔

https://p.dw.com/p/30jXh
Flüchtling in Libyen
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gambarini

گزشتہ دو ہفتے چانسلر میرکل  کے لیے فیصلہ کن دنوں سے بھی کچھ زیادہ ہی تھے۔ یہ پناہ گزینوں سے متعلق یورپی پالیسی کی بنیادی سمت کے لیے ایک تلخ جدوجہد کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس جنگ میں ان طاقتوں کی جیت ہوئی، جو تقسیم پر یقین رکھتی ہیں۔ وہ سیاستدان جیتے ہیں، جو سرحدوں کا کنٹرول سخت بنانے اور شمالی افریقہ میں مہاجرین کے کیمپوں کے قیام کے ذریعے مستقبل میں مہاجرین  کے لیے بحیرہ روم  کے خطرناک راستے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دینا چاہتے ہیں۔ مہاجرین کو ان مجوزہ کیمپوں میں اس وقت تک رکھا جائے گا، جب تک یورپ ان کے مقدر کا فیصلہ نہیں کرتا۔ اسی طرح یورپی حکومتیں بھی مستقبل میں مہاجرین کے حوالے سے سخت اقدامات کریں گی۔ مہاجرین کو مشترکہ رہائش گاہوں میں ایک ساتھ رکھا جائے گا، پناہ کی درخواستوں پر کارروائی جلد از جلد ممکن بنائی جائے گی اور ’ناپسندیدہ مہمانوں‘ کو جلد از جلد واپس ان کے ملکوں میں بھیجنے کی کوششیں تیز تر ہو جائیں گی۔

جرمنی کا اندرونی بحران

گزشتہ ہفتے انگیلا میرکل نے اپنے یورپی ساتھیوں کے ساتھ بڑے یورپی منصوبوں کے حوالے سے مذاکرات کیے تھے، یہ مذاکرات ان سیاستدانوں کے ساتھ تھے، جو ابھی تک یورپ کی کھلی سرحدوں کو مسترد کرتے آئے ہیں۔ چانسلر میرکل کے انہی مذاکرات اور منصوبہ بندی کی وجہ سے ان کے ’مخالف‘ ملکی وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر اپنے رویے میں لچک دکھانے پر مجبور اور جرمنی کا اندرونی بحران ختم کرنے پر رضامند ہوئے۔ اس طرح فی الحال جرمن حکومت کو ریزہ ریزہ ہونے سے بچا لیا گیا۔

Ines Pohl Kommentarbild App
تبصرہ نگار اینس پوہلتصویر: DW/P. Böll

یہ نہ صرف جرمنی بلکہ یورپ کے لیے بھی ایک اچھی خبر ہے۔ صرف عوامیت پسند اور نفرت پھیلانے والوں کی ہی اس میں دلچسپی تھی کہ یورپ کی سب سے بڑی معیشت میں غیریقینی صورتحال میں مزید اضافہ ہو۔ اس وقت ملک کا استحکام سب سے زیادہ ضروری ہے۔ دوسری جانب میرکل مہاجرین کے حوالے سے اس قدر جلد یورپی سربراہی اجلاس کا انعقاد کرنے اور سیاسی پناہ کے لیے ’بنیادی اصول‘ وضع کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔

جوابات سے زیادہ سوالات

اس وقت یورپ کے اندر بھی جوابات سے زیادہ سوالات پائے جاتے ہیں۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ کس یورپی ملک میں مہاجرین کے کیمپ بنائے جائیں گے؟ وہ کون سی یورپی حکومتیں ہیں، جو اٹلی، اسپین  اور یونان کا بوجھ بانٹنے پر تیار ہیں۔ یورپ میں سب سے پہلے مہاجرین انہی ملکوں تک پہنچ رہے ہیں۔ جرمنی میں برسراقتدار کل تین میں سے دو جماعتوں (سی ڈی یو اور سی ایس یو) کا اس قدر جلد اتفاق اس وجہ سے بھی ہو گیا کیوں کہ بہت سی چیزیں مبہم ہیں۔ جو چیز سب سے واضح ہے، وہ یہ ہے کہ سرحدوں کی حفاظت بڑھا دی جائے گی۔ ان کمپنیوں اور اداروں کے لیے منافع کا وقت ہے، جو سرحدی باڑیں تیار کرتی ہیں۔

گزشتہ تین برسوں سے جرمن چانسلر ’انسان دوست پناہ گزین پالیسی‘ کے لیے جدوجہد کرتی آئی ہیں۔ اس دوران ان سے کئی غلطیاں بھی ہوئیں لیکن اب یورپ کے بدلتے ہوئے ماحول، اپنے ہی ملک میں عوامیت پسندوں کی بڑھتی ہوئی حمایت اور اپنی ہی اتحادی ایک جماعت کی مخالفت کی وجہ سے وہ بھی نئی مشکل پالیسیاں متعارف کرانے پر مجبور ہو چکی ہیں۔

ان کی یہ پالیسی کہ ضرورت مندوں کی مدد کی جانا چاہیے، تو ابھی تک تبدیل نہیں ہوئی لیکن ان پر ابھی مزید دباؤ ڈالا جائے گا۔ بات صرف باڑیں لگانے تک محدود نہیں رہے گی بلکہ ان پر امیگریشن پالیسیوں میں تبدیلی لانے اور افریقہ کے ساتھ تعاون بڑھانے کے لیے بھی زور ڈالا جائے گا تاکہ وہاں کے مقامی باشندے اپنے گھروں میں ہی رہیں۔

سرحدی چوکیاں اور باڑیں فی الحال تو یورپی حکومتوں کو بچا لیں گی لیکن یہ کوئی مستقل حل نہیں ہیں۔