1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میرس وائرس کے جنوبی کوریا کے معیشت پر اثرات

امتیاز احمد12 جون 2015

جنوبی کوریا کی سیاحتی ایجنسیاں میرس وائرس کی وباء کو شمالی کوریا کے حملے یا پھر کسی ایٹمی ری ایکٹر کی تباہی سے بھی زیادہ خطرناک محسوس کر رہی ہیں۔ وہاں اس وائرس کی وجہ سے تیرہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1FgRV
Südkorea MERS Ausbruch
تصویر: Reuters/K. Hong-Ji

کِم چُن چو کی سیاحتی کمپنی گزشتہ پچیس برسوں سے جنوبی کوریا میں اپنی خدمات فراہم کر رہی ہے لیکن موجودہ سال ان کے لیے بدترین ثابت ہو رہا ہے۔ اس ملک میں گزشتہ ماہ ’مڈل ایسٹرن ریسپیریٹری سینڈروم‘ میرس وائرس کی وباء پھیلنے کی خبریں منظر عام پر آئی تھیں، جس کے بعد سے چین، ہانک کانگ اور تائیوان کے ہزارو سیاح دارالحکومت سیئول کے اپنے دورے منسوخ کر چکے ہیں۔ جنوبی کوریا میں طے شدہ تقریباﹰ وہ تمام بین الاقوامی کانفرنسیں منسوخ یا پھر معطل کر دی گئی ہیں، جو کم چُن چو کی سیاحتی کمپنی کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہو سکتی تھیں۔

کِم چُن چو کا کہنا تھا کہ سن دو ہزار دس میں شمالی کوریا کی جنوبی کوریا کے ایک جزیرے پر بمباری جبکہ سن دو ہزار گیارہ میں جاپان کے فوکو شیما حادثے کے بعد بھی ان کو اتنا زیادہ نقصان اٹھانا نہیں پڑا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس جون کی نسبت رواں ماہ ان کی آمدنی میں تیس فیصد سے زائد کمی آئی ہے جبکہ انہیں جولائی اور اگست میں اس سے بھی زیادہ برے حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہی گرمیوں کے مہینوں میں کا کاروبار سب سے زیادہ ہوتا ہے۔

Südkorea MERS
تصویر: Reuters/Yonhap/K. Do-hoon

ان کا کہنا تھا کہ یہ وباء جنوبی کوریا کے لیے پیچھے کی طرف ایک قدم ہے کیونکہ اس سے جنوبی کوریا کے عالمی تشخص پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، ’’میری خواہش ہے کہ اس وباء کا جلد از جلد خاتمہ ہو تاکہ معیشت کو مزید نقصان نہ پہنچے۔‘‘

میرس وائرس کے بارے میں طبّی ماہرین اور محققین کا کہنا ہے کہ یہ وائرس کسی بھی وقت اپنی ہیئیت تبدیل کر سکتا ہے۔ اس کی ایک خوفناک مثال 2002ء تا 2003ء کا منظر ہے۔ تب اسی وائر س سے منسلک سانس کی ایک اور سنگین بیماری سارس نے تیزی سے پھیلتے ہوئے آٹھ سو افراد کی جان لی تھی۔

Südkorea MERS
تصویر: Reuters/Kim Hong-Ji

میرس کی تشخیص سب سے پہلے سن دو ہزار بارہ میں ہوئی تھی۔ اُس وقت اس کی وجہ سارس کے وائرس ہی کی فیملی سے تعلق رکھنے والا کورونا وائرس بنا تھا تاہم عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ اوکےاعداد و شمار کے مطابق میرس کے سبب ہونے والی اموات کی شرح اڑتیس فیصد تک ہے اور یہ دیگر وائرس کے سبب ہونے والی ہلاکتوں سے کہیں زیادہ ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے اعداد و شمار سے پتہ چلا ہے کہ دنیا بھر میں میرس کے کُل گیارہ سو سے زائد کیسز سامنے آ چُکے ہیں جبکہ یہ وائرس اب تک کم از کم چار سو چھتیس جانیں لے چُکا ہے جن میں سے زیادہ تر اموات مشرق وسطیٰ کے خطے میں پیش آئیں۔ اس کے خلاف نہ تو کوئی ویکسین نہ ہی کوئی علاج موجود ہے۔