میرس وائرس کے جنوبی کوریا کے معیشت پر اثرات
12 جون 2015کِم چُن چو کی سیاحتی کمپنی گزشتہ پچیس برسوں سے جنوبی کوریا میں اپنی خدمات فراہم کر رہی ہے لیکن موجودہ سال ان کے لیے بدترین ثابت ہو رہا ہے۔ اس ملک میں گزشتہ ماہ ’مڈل ایسٹرن ریسپیریٹری سینڈروم‘ میرس وائرس کی وباء پھیلنے کی خبریں منظر عام پر آئی تھیں، جس کے بعد سے چین، ہانک کانگ اور تائیوان کے ہزارو سیاح دارالحکومت سیئول کے اپنے دورے منسوخ کر چکے ہیں۔ جنوبی کوریا میں طے شدہ تقریباﹰ وہ تمام بین الاقوامی کانفرنسیں منسوخ یا پھر معطل کر دی گئی ہیں، جو کم چُن چو کی سیاحتی کمپنی کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہو سکتی تھیں۔
کِم چُن چو کا کہنا تھا کہ سن دو ہزار دس میں شمالی کوریا کی جنوبی کوریا کے ایک جزیرے پر بمباری جبکہ سن دو ہزار گیارہ میں جاپان کے فوکو شیما حادثے کے بعد بھی ان کو اتنا زیادہ نقصان اٹھانا نہیں پڑا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس جون کی نسبت رواں ماہ ان کی آمدنی میں تیس فیصد سے زائد کمی آئی ہے جبکہ انہیں جولائی اور اگست میں اس سے بھی زیادہ برے حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہی گرمیوں کے مہینوں میں کا کاروبار سب سے زیادہ ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ وباء جنوبی کوریا کے لیے پیچھے کی طرف ایک قدم ہے کیونکہ اس سے جنوبی کوریا کے عالمی تشخص پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، ’’میری خواہش ہے کہ اس وباء کا جلد از جلد خاتمہ ہو تاکہ معیشت کو مزید نقصان نہ پہنچے۔‘‘
میرس وائرس کے بارے میں طبّی ماہرین اور محققین کا کہنا ہے کہ یہ وائرس کسی بھی وقت اپنی ہیئیت تبدیل کر سکتا ہے۔ اس کی ایک خوفناک مثال 2002ء تا 2003ء کا منظر ہے۔ تب اسی وائر س سے منسلک سانس کی ایک اور سنگین بیماری سارس نے تیزی سے پھیلتے ہوئے آٹھ سو افراد کی جان لی تھی۔
میرس کی تشخیص سب سے پہلے سن دو ہزار بارہ میں ہوئی تھی۔ اُس وقت اس کی وجہ سارس کے وائرس ہی کی فیملی سے تعلق رکھنے والا کورونا وائرس بنا تھا تاہم عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ اوکےاعداد و شمار کے مطابق میرس کے سبب ہونے والی اموات کی شرح اڑتیس فیصد تک ہے اور یہ دیگر وائرس کے سبب ہونے والی ہلاکتوں سے کہیں زیادہ ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے اعداد و شمار سے پتہ چلا ہے کہ دنیا بھر میں میرس کے کُل گیارہ سو سے زائد کیسز سامنے آ چُکے ہیں جبکہ یہ وائرس اب تک کم از کم چار سو چھتیس جانیں لے چُکا ہے جن میں سے زیادہ تر اموات مشرق وسطیٰ کے خطے میں پیش آئیں۔ اس کے خلاف نہ تو کوئی ویکسین نہ ہی کوئی علاج موجود ہے۔