1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار:  فوجی جنتا  نے 2023 میں الیکشن کرانے کا وعدہ کیا

2 اگست 2021

میانمار کی فوج کے سربراہ نے بغاوت کے چھ ماہ مکمل ہونے کے موقع پر یکم اگست کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے اگست 2023 تک ملک میں کثیر جماعتی انتخابات کرانے کا وعدہ کیا۔

https://p.dw.com/p/3yQ3j
Min Aung Hlaing
تصویر: AP/picture alliance

میانمار فوجی جنتا کے سربراہ من آنگ ہلینگ نے اتوار کے روز ٹیلی ویزن پر اپنے خطاب میں کہا کہ پچھلے چھ ماہ کے دوران 'چند ایک دہشت گردانہ حملوں‘ کو چھوڑ پر ملک میں استحکام رہا۔ انہوں نے ’ہر صورت میں‘ اگست 2023 تک کثیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرانے کا بھی وعدہ کیا۔

خیال رہے کہ فوج نے یکم فروری کو ملک میں سویلین لیڈر آنگ سان سوچی کی جماعت کی حکومت کا تختہ پلٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ فوجی سربراہ آنگ ہلینگ نے سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کے اراکین کو ”دہشت گرد" قرار دیا اور بغاوت کے بعد سے ملک میں تشدد کو ہوا دینے کا الزام لگایا۔

فوجی جنرل نے سن 2023 تک ملک سے ایمرجنسی ختم کردینے کا بھی اعلان کیا۔

آرمی چیف نے مزید کیا کہا؟

جنرل من آنگ ہیلنگ نے ملک میں جمہوریت بحال کرنے کاوعدہ کیا ہے لیکن اس کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں کیا۔ انہوں نے کہا،”میں ملک میں جمہوریت اور وفاق پر مبنی ایک یونین کے قیام کی ضمانت دیتا ہوں۔"

فوجی رہنما نے کہا کہ پچھلے چھ ماہ کے دوران ”چند ایک دہشت گردانہ حملوں" کو چھوڑ کر پورا ملک”مستحکم“ رہا۔

فوجی جنتا نے اقتدار پر اپنے قبضے کو جائز قراردینے کے لیے سن 2020 میں ہونے والے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے ہیں۔ فوج نے گزشتہ ہفتے انتخابات کے نتائج کو منسوخ کردیے تھے۔

Proteste in Myanmar
تصویر: AP/picture alliance

اس اعلان کا کیا مطلب ہے؟

فوج نے ابتدا میں کہا تھا کہ وہ بغاوت کے بعد ایک سال تک اقتدار میں رہے گی۔ اس نے یہ دعوی بھی کیا تھا کہ اقتدار پرقبضہ آئین کے دائرہ کار کے اندر کیا گیا ہے۔

فوجی سربراہ کی طرف سے انتخابات کرانے کے اعلان کے بعد اب ملک پوری طرح فوج کی گرفت میں آ گیا ہے۔ دوسری طرف جمہوریت نواز اور بین الاقوامی برادری نے اپوزیشن کے خلاف فوج کی ظالمانہ کارروائیوں پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔

میانمار میں تشدد جنوبی ایشا کو غیر مستحکم کر سکتا ہے، اقوام متحدہ 

ہفتے کے روز طلبہ کے چھوٹے چھوٹے گروپوں نے تمام بڑے شہروں میں فوجی جنتا کے خلاف سڑکوں پر مظاہرے کیے۔

اس دوران کووڈ کی وجہ سے بھی ملک میں خوف و ہراس کا ماحول ہے۔ ہسپتالوں میں کام کرنے والے جمہوریت نواز ورکر کام پر نہیں آرہے ہیں جس کی وجہ سے ہسپتال خالی پڑے ہیں۔ ورلڈ بینک نے اس سال ملکی معیشت میں اٹھارہ فیصد گراوٹ کی پیش گوئی کی ہے۔

Proteste in Myanmar
تصویر: STR/AFP

’فوج پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا‘

انسانی حقوق کے کارکن ماونگ زرنی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابارت کرانے کے فوج کے وعدے پر انہیں شبہ ہے۔

انہوں نے کہا،”یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، ایسی باتیں وہ کہتے رہے ہیں۔ 1958کے بعد سے ہی جب بھی ملک میں فوج آئی ہے، اس نے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرانے کے وعدے کیے۔ لیکن اگر انتخابات کے نتیجے میں فوج کی پسندیدہ جماعت حکومت بنانے میں ناکام رہی تو انہوں نے انتخابات کے نتائج کو ہی منسوخ کر دیا۔"

یورپی یونین اور برطانیہ کی میانمار کی فوجی جنتا پر نئی پابندیاں

زرنی نے مزید کہا کہ فوج عوام میں اپنا اعتبار کھو چکی ہے۔ اسے کسی زمانے میں 'قومی آزادی فورس‘ کے طورپر دیکھا جاتا تھا لیکن لوگ اب اسے ایک’دہشت گرد تنظیم‘ کے طورپر دیکھتے ہیں، جس نے ملک کے حصوں کا چارج سنبھال رکھا ہے اور اب میانمار میں کوئی حکومت کام نہیں کر رہی ہے۔“

بین الاقوامی برادری کا ردعمل

جنرل من آنگ ہیلنگ کا یہ اعلان ایسے وقت آیا ہے جب پیر کے روز جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کی تنظیم، آسیان، کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ ہونے والی ہے۔ اس میٹنگ میں میانمار میں جاری سیاسی بحران اور تشدد سے نمٹنے میں مدد کے لیے ایک خصوصی ایلچی کی بھی تقرری کی جائے گی۔  دس رکنی آسیان میں میانمار بھی شامل ہے۔

میانمار: سوچی کے خلاف بدعنوانی کا مقدمہ

اس دوران فوجی جنتا کے سربراہ نے اپنے خطاب کے دوران آسیان کے ساتھ تعاون کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ 'آسیان کے فریم ورم کے اندر‘ کام کرنے کے لیے تیار ہیں جس میں میانمار کے لیے آسیان کے خصوصی سفیر کے ساتھ مذاکرات بھی شامل ہیں۔

 ج ا/ ص ز  (روئٹرز، اے پی، ڈی پی اے)