1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'مہاجرین کو روکنے کے لیے فوج کی تعیناتی بذریعہ قانونی ترمیم‘

26 جولائی 2018

بوسنیا میں سکیورٹی کے وزیر نے کہا ہے کہ وہ ایسی قانونی ترامیم لانے کی کوشش کریں گے جن سے ملکی سرحد پر  بوسنیا میں داخل ہونے والے مہاجرین کو روکنے کے لیے فوج تعینات کی جا سکے۔

https://p.dw.com/p/327Ld
Bosnien Flüchtlinge
تصویر: picture-alliance/AA/E. Omic

  بوسنیا تارکین وطن کے لیے یورپ میں داخلے کے لیے مرکزی مقام کا درجہ رکھتا ہے۔ سن 2015 میں یورپ آنے والے لاکھوں مہاجرین زیادہ تر بوسنیا ہی کے راستے یورپی ممالک میں داخل ہوئے تھے۔ تاہم اب یہ سابق یوگو سلاوین جمہوریہ پانچ ہزار مہاجرین کا بوجھ برداشت کر رہی ہے جو اس کے پڑوسی ملک کروشیا کے ذریعے یورپ کی شمال کی طرف اپنا سفر جاری رکھنے کے لیے یہاں رکے ہوئے ہیں۔

سن 2018 کے اوائل سے اب تک سربیا اور مونٹینیگرو کے راستے قریب نو ہزار تارکین وطن بوسنیا میں داخل ہوئے ہیں۔ ان میں تین ہزار گزشتہ ماہ بوسنیا پہنچے تھے، جبکہ اتنی ہی تعداد میں مہاجرین کروشیا داخل ہونے میں کامیاب بھی ہوئے۔ بوسنیا میں سیکیورٹی کے وزیر ڈریگن میکٹچ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا،’’میں قانون میں ایسی ترامیم لانا چاہتا ہوں جن کی رُو سے ملکی بارڈر پر مہاجرین کا داخلہ بند کرنے کے لیے فوج تعینات کی جا سکے۔

شمال مغربی بوسنیا میں بدھ کے روز پولیس نے بتایا تھا کہ ایک مہاجر کیمپ میں پچاس تارکین وطن کے درمیان جھگڑا ہوا جس میں پندرہ افرادزخمی ہوئے۔

Flüchtlinge Grenzgebiet Türkei Syrien
تصویر: picture-alliance/dpa/V. Gurgah

تین اعشارہ پانچ ملین آبادی والے ملک بوسنیا میں صرف دو سرکاری مہاجر کیمپ قائم کیے گئے ہیں اور کم وسائل کے ساتھ یہاں کی حکومت مہاجرین کے مسئلے سے نبرد آزما ہے۔

معاشی لحاظ سے کمزور مشرقی یورپی ملک بوسنیا میں مہاجرین کی آمد میں واضح اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ان میں زیادہ تعداد ایسے نوجوان افراد کی ہے جو بوسنیا کے پڑوسی ملک کروشیا کے راستے یورپی یونین کی حدود میں داخل ہو نا چاہتے ہیں۔

تاہم شکستہ بنیادی ڈھانچے،کمزور اداروں اور تقریباﹰ نہ ہونے کے برابر فنڈز کے ساتھ بوسنیا اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں۔ 

ص ح / ع ت / روئٹرز