1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین کا ’یونانی مسیحا اور محافظ فرشتہ‘ چل بسا

11 اکتوبر 2018

سن 2015ء میں ہزاروں مہاجرین کو بحیرہ ایجیئن میں ڈوبنے سے بچانے والے کوسٹ گارڈ لیفٹیننٹ کیریا کوس پاپاڈوپولوس دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے ہیں۔ انہیں پناہ گزینوں کی زندگیاں بچانے کے لیے ’ہیرو آف ایجیئن‘ کہا جاتا تھا۔

https://p.dw.com/p/36MHX
Leutnant der griechischen Küstenwache Kyriakos Papadopoulos
تصویر: Reuters/Eurokinissi

لیفٹینیٹ کیریا کوس پاپاڈوپولوس کی عمر چوالیس برس تھی۔ یونان میں سمندری امور کے وزیر فوتیس کوویلیس نے پاپا ڈوپولوس کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا، ’’لیسبوس کے جزیرے پر پیدا ہونے اور پرورش پانے والے پاپاڈوپولوس نے یورپ کو بتا دیا کہ یونان میں انسانیت، برابری، یکجہتی اور امن جیسی اقدار کی کیا اہمیت ہے۔انہوں نے انسانی زندگی کی اہمیت کو دنیا بھر کے سامنے اجاگر کیا۔‘‘

پاپاڈوپولوس سن 2015ء میں مہاجرین کے بحران کے دوران اپنے بحری جہاز کو لے سمندر میں نکل جاتے اور ربڑ کی ناقص کشتیوں کے ڈوبنے پر اُن تارکین وطن کی زندگیاں بچایا کرتے تھے جو ترکی سے یونان کے درمیان مختصر مگر خطرناک سمندری راستے کو عبور کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔

لیسبوس کے مئیر سائپروس گیلینوس نے ٹویٹر پر لکھا،’’ آج لیسبوس غریب ہو گیا۔‘‘

Lesbos Ankunft Flüchtlingsboot
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Masiello

سن 2015 میں یونانی جزیرہ لیسبوس ترکی سے یورپ پہنچنے والے مہاجرین کے لیے داخلے کا ترجیحی مقام تھا۔ لیکن اس سمندری راستے سے یونانی جزائر تک پہنچنے کے سفر میں کئی سو افراد ڈوب کر ہلاک بھی ہوئے اور بہت سے لاپتہ ہو گئے۔

ایسے میں یونانی کوسٹ گارڈ نے ماہی گیروں کی مدد سے ہزاروں ڈوبنے والے مہاجرین کو بچانے کے لیے امدادی کارروائیاں کیں۔ اس حوالے سے پاپاڈوپولوس کو یونانی میڈیا میں ’ہیرو آف ایجیئن‘ اور ’ مہاجرین کا محافظ فرشتہ‘ لکھا جاتا تھا۔

سن 2016 میں آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد ایک مختصر دستاویزی فلم ’4.1 مائیلز‘ میں پاپاڈوپولوس نے کہا تھا،’’ایک طرح سے میں بھی خوفزدہ ہوں۔ میں انہیں بچا لیے جانے کی یقین دہانی نہیں کرا سکتا۔ جب میں اُن کی آنکھوں میں دیکھتا ہوں تو وہاں جنگ کی یادیں ہیں۔ وہ جنگ سے بھاگ کر سمندر کا سفر کرتے ہیں۔ اور ایک پر امن ملک کے سمندر میں ایک دوسرے کو موت کے منہ میں جاتے دیکھتے ہیں۔‘‘

ص ح / ا ب ا / نیوز ایجنسی