مہاجرين کے ليے کچھ کيا جائے، برطانيہ کے مذہبی رہنما بُول پڑے
12 ستمبر 2016برطانوی مذہبی رہنماؤں نے اپنے خط ميں لکھا ہے، ’’يہ ملک کھلے دل سے مدد اور نيکی کرنے، اظہار يکجہتی اور احترام کے ليے جانا مانا جاتا ہے۔ برطانيہ نے ماضی ميں متعدد مرتبہ اور موجودہ دور سے کہيں زيادہ مشکل صورتحالوں ميں ظلم و تشدد کی وجہ سے ترکِ وطن کرنے والے افراد کے ساتھ انہی جذبات کے تحت سلوک روا رکھا ہے۔‘‘ ان رہنماؤں نے پير بارہ ستمبر کو ملکی وزير اعظم کو ايک خط ارسال کيا، جس ميں مہاجرين کو خوش آمديد کرنے کے ليے اضافی اقدامات اٹھانے کی اپيل کی گئی ہے۔ گروپ کی سربراہی کے فرائض کينٹربری کے آرچ بشپ جسٹن ويلبی کر رہے ہيں۔
خط ميں مزيد لکھا گيا ہے، ’’ہماری آنکھوں کے سامنے يہ انسانی المیہ جاری ہے۔ مستحق افراد کو پناہ فراہم کرنے کے ليے حکومت کے پاس قابل عمل اور فوری اقدمات دستياب ہيں۔‘‘ خط کے مسودے ميں حکومت سے يہ مطالبہ بھی کيا گيا ہے کہ مہاجرين کو ہجرت کے محفوظ اور قانونی راستے مہيا کيے جائيں۔ اہل خانہ سے بچھڑے مہاجرين کو ملانے کے ليے منصفانہ اور انسان دوست پاليسياں اپنانے پر بھی زور ديا گيا ہے۔
برطانيہ ميں مختلف مذاہب کے قريب دو سو رہنماؤں کی جانب سے لکھے جانے والے اس خط ميں ايک شامی نژاد خاتون ڈاکٹر کی کہانی بیان کی گئی ہے، جو اس وقت برطانيہ ميں مقيم ہيں تاہم وہ اپنے والدين کو لبنان کے ايک مہاجر کيمپ سے برطانيہ منتقل کرانے ميں ناکام ہو چکی ہيں۔ تحرير ميں ايک ايسے شامی بچے کا بھی ذکر ہے، جس کے والدين اردن کے ايک کيمپ ميں ہيں اور جنہيں اپنے لال سے ملنے کے ليے برطانيہ جانے کی اجازت نہيں دی گئی۔
مذہبی رہنماؤں نے اپنے خط ميں اس بات پر فخر کا اظہار کيا کہ ايمنسٹی انٹرنيشنل کے ايک حاليہ جائزے ميں تراسی فيصد برطانوی شہريوں نے اپنے محلوں، حتیٰ کہ اپنے گھروں ميں بھی مہاجرين کو خوش آمديد کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔
یہاں يہ امر اہم ہے کہ لندن حکومت نے سن 2020 تک اقوام متحدہ کے زير انتظام مہاجر کيمپوں سے بيس ہزار شامی تارکين وطن جبکہ فرانس، يونان اور اٹلی ميں اس وقت موجود تنہا نابالغ مہاجر بچوں ميں سے صرف تين ہزار کو پناہ فراہم کرنے کا وعدہ کيا ہے۔ برطانيہ کی قدامت پسند حکومت اس سلسلے ميں کافی تنقيد کی زد ميں رہی ہے۔